سرزمین کشمیر کو کئی اعزازات حاصل ہیں۔ کوئی اسے اپنی شہ رگ کے حوالہ سے تجربوں کے مراحل سے گذار رہا ہے تو کوئی ناقابل تنسیخ حصہ کے ناطے سیاسی اور انتظامی شعبوں کے حوالوں سے تجربات کررہا ہے۔ کشمیرکے اب تک کے قدرآور لیڈر مرحوم شیخ محمدعبداللہ اپنی تقریروں میںعموماً کہا کرتے تھے کہ کشمیرکو تجربہ گاہ کا درجہ حاصل ہے اور باہم متصادم سیاسی اور طاقتور قوتیں اپنے اپنے اہداف، ایجنڈا اور عزائم کی تکمیل کے حوالہ سے یہاں کشمیر میں تجربے کررہاہے۔
آج کی تاریخ میںبھی اس حوالہ سے جائز ہ لیاجائے تو یہ تجربے جن کی ہیت مختلف نوعیت کی ہے سرزمین کشمیر کے حوالہ سے کئے جارہے ہیں۔ ابھی پارلیمانی الیکشن کا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا ۔ الیکشن مہم کے دوران سیاسی پارٹیوں کی طرف سے جو بیانات اور اعلانات کے ساتھ ساتھ جو کچھ بھی دعویٰ سامنے لائے جاتے رہے وہ اپنے آپ میں دلچسپ بھی ہیں اور غور طلب بھی ہیں۔ اس الیکشن گہما گہمی کے دوران سب سے زیادہ جس شئے کے حوالہ سے بیانات اور دعویٰ ایک تواتر کے ساتھ سامنے آتے رہے اس کا تعلق آئین کی کالعدم شدہ دفعہ ۳۷۰؍ سے ہے ۔ کوئی ووٹروں کی بڑھتی تعداد کو اس دفعہ کی منسوخی کا ثمرہ یا ردعمل کے طور پیش کررہا ہے تو کوئی ووٹروں کی اس بڑھتی دلچسپی کو دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ کے خلاف عوامی ردعمل کے طور پیش کررہا ہے۔
دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ اوراب بحالی کے نعروں کے تناظرمیں جتنے بیانات اور دعویٰ سامنے آتے رہے ان سب کاالگ الگ سے تجزیہ کیاجائے تو یقیناً ایک دلچسپ مگر حیران کن تھیسسز کے طور یہ معاملہ اُبھر کر مُحقِقِین ، تجزیہ کاروں، ناقدین اور حامیوں کیلئے ایک نئی توجہ اور دلچسپی کا موجب ثابت ہوسکتا ہے ۔ یہاں تک کہ اب وزیراعظم نے بھی اس دفعہ کے تعلق سے اپنے سابق موقف سے قدرے ہٹ کر دعویٰ کیا ہے کہ ’’دفعہ ۳۷۰ لوگوں کا نہیں بلکہ محض کچھ (پانچ) خاندانوں کا ایجنڈا تھا۔کشمیریوں نے ووٹ دے کر ان لوگوں جو شکوک میں مبتلا تھے کو پیغام دیا ہے‘‘۔
عین اُس وقت جب وزیراعظم کا یہ بیان سامنے آیا ہی چاہتا تھا نیشنل کانفرنس کی طرف سے بھی ایک بیان سامنے آیا جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ دعویٰ کیاگیا کہ ’بڑی تعداد میں ووٹ ڈال کر لوگوںنے ایک بار پھر یہ واضح کردیا کہ وہ جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں اور حق رائے دہی کے ذریعے صاف الفاظ میں یہ پیغام دیا کہ لوگوںنے اپنے حقوق چھین لئے جانے کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
بیانات اور دعوئوں کی نوعیت اپنی جگہ، ان کے اندر چھپے اور عیاں پیغامات کی اہمیت بھی اپنی جگہ لیکن کشمیر کی نوجوان نسل گذرے ۷۵؍ سال کے اس سیاسی مخمصے کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ پہلے ۱۹۵۲ء سے ۲۰۰۰ء تک کے الیکشنوں کو کشمیرمیں رائے شماری کا متبادل کے طور پر عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کئے جاتے رہے اور اب گذرے ۲۵؍ سالوں سے جذبہ وطنیت اور قومی دھارے میں حصہ داری کے حوالہ سے الیکشن عمل میںلوگوں کی شرکت کے طور پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
کانگریس کے پچاس سالہ دور اقتدار کے دوران جموں وکشمیر میںکرائے گئے فراڈاور دھاندلیوںسے عبارت یکطرفہ الیکشن عمل کو رائے شماری کے متبادل کے طور پیش کرنے کی اندھی سیاسی مصلحتوں کی تابع کوشش کے بطن سے پیدا صورتحال ، سیاسی غیر یقینی اور تذبذب کا دور دورہ ابھی پوری طرح سے ختم ہونے کو نہیں آرہا تھا کہ الیکشن عمل کو دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ اور حق کے لباس پہنانے کا شور ہر طرف سے سنائی دے رہا ہے ۔
کوئی کوئی یہ اعتراض پیش کرسکتا ہے کہ اس سارے عمل کا تعلق یا تشریح کس حوالہ سے ’تجربہ‘ کے طور استعمال کیاجاسکتاہے ۔ اگر چہ مرحوم شیخ محمدعبداللہ اپنی تقریروں میں اس تجربہ کا تذکرہ کیا کرتے تھے لیکن یہ تجربات کس نوعیت کے ہوا کرتے تھے ان کی وضاحت انہوںنے کبھی نہیں کی۔ البتہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد محبوبہ مفتی اپنے بیانات میںاب تک کئی بار لفظ تجربہ کاحوالہ دے چکی ہے اور کہا ہے کہ کشمیر میں انتظامی سیٹ اپ کئی معاملات کا تجربہ کرنے کے بعد ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ان تجربات سے حاصل نتائج کی روشنی میں تجربے کئے جارہے ہیں۔یعنی دوسرے الفاظ میں سرزمین کشمیر کو کسی نہ کسی حوالہ سے ایک تجربہ گاہ کے طور ٹریٹ کیاجارہاہے۔
مثلاً ایک چرچہ یہ بھی زبان زد عام ہے کہ کشمیر میںمخصوص فکر کے حامل کچھ ڈاکٹر ان کچھ ادویات کا تجربہ کشمیر میںمختلف امراض میں مبتلا لوگوں پر کررہے ہیں جو ملکی سطح پر ابھی آزمائش کے مراحل ہی سے گذر رہے ہوتی ہیں۔ یہ دعویٰ کہا ں تک اور کس حد تک حقائق پر مبنی ہے اس بارے میں کچھ شہادتیں بھی دستیاب ہیں اور کچھ مفروضے بھی، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کہاں تک سچ ہے یا کس حد تک غلط، لیکن پردے کے پیچھے کچھ نہ کچھ ضرور ہے ورنہ بارش کے بغیر کیچڑ کب پیدا ہوئی ہے؟
جموںوکشمیر صدیوں سے دُنیا کے نقشے پر ایک وسیع وعریض آزاد اور خودمختار ریاست کے طور موجود تھی لیکن اس ریاست کے حصے کرکے ایک حصے پر چین قابض ہوا، دوسرے پر پاکستان نے کنٹرول حاصل کیا جبکہ ایک اور حصے کو پاکستان کی ایک اکائی کے طور پاکستان میں ضم کردیا گیا۔ باقی ماندہ جموںوکشمیر سے لداخ اور کرگل پر مشتمل ایک یوٹی کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔ کشمیر اور جموں خطوں پر مشتمل ایک علیحدہ یوٹی فی الحال نقشے پر برقرار ہے لیکن کشمیر کے تعلق سے آبادی کا ایک مخصوص فکر اور نظریہ کا حامل طبقہ کشمیر کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرکے ہیوم لینڈ کے قیام کی بات کررہا ہے جبکہ جموں کو کشمیرسے الگ کرکے جموں پر مشتمل ایک الگ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کرنے والے بھی جموں میںسرگرم ہیں ان سارے اقدامات ، تقسیم درتقسیم مطالبات وغیرہ کا تعلق تجربوں سے ہی عبارت ہے۔
بہرحال پارلیمانی الیکشن کے دوران ۳۷۰؍ کے تعلق سے نعرہ بازی اب کچھ روز تک تھم جائیگی لیکن یہ نعرہ بازی اپنے ایک نئے انداز، روپ اور طرح کے ساتھ اُس وقت پھر سے سنائی دے گی جب جموں وکشمیرمیں اسمبلی الیکشن کے اہتمام وانعقاد کا آفیشل سطح پر بگل بج جائیگا۔ اس کو ختم کرنے والے بھی خاتمہ کے دفاع میں میدان میں اُترے نظرآئیں گے اوراس کی بحالی کے تعلق سے اس کے حامی بھی نئے دم خم کے ساتھ میدان میں ڈٹے نظرآسکتے ہیں۔ آنے والے مجوزہ اسمبلی الیکشن میںسیاسی پارٹیوں کی تمام تر نعرہ بازی اور نریٹو کا محور اور مرکز صرف اور صرف ۳۷۰؍ رہے گا، اس میں دو رائے نہیں!