کشمیر کے تین پارلیمانی حلقوں سے منتخب ہوکر کون پارلیمنٹ میں جلوہ گر ہونے جارہاہے، اس بارے میں اگر چہ قبل از وقت کچھ قطعیت کے ساتھ کہا نہیں جاسکتا ہے البتہ کچھ ایسے انڈیکس سامنے ضرور آرہے ہیں جن سے ہوائوں کے رُخ کا کچھ کچھ اندازہ ہورہا ہے لیکن انڈیکس اپنی جگہ ایک مخصوص پارلیمانی حلقے کے بارے میں جو کچھ بھی عوامی حلقوں میں چرچے ہیں آپ انہیں خدشات کا نام بھی دے سکتے ہیں، مفروضہ بھی قرار دیاجاسکتا ہے یا اور کسی لبادے میں پہناکر اپنی اختراع کو زبان دے سکتے ہیں وہ اگر نتائج کے دن سچ ثابت ہوئے تو الیکشن پر اسیس کے حوالہ سے کشمیرمیں گذرے برسوں کے دوران جو بھی طرزعمل اور روایات کو مسلط کیاجاتا رہا ہے اور اس کے تعلق سے سنجیدہ عوامی باشعور سیاسی حلقوں کا یہ یقین ایک بار پھر مستحکم ہوجائے گا کہ یہاں جمہوری اقدار کا احترام لازم نہیں ۔
اس حوالہ سے خدشات، ابہامات ،سوالات سے قطع نظر سنجیدہ حلقے اس یقین کا بار بار اظہار کررہے ہیں کہ جو کوئی بھی چاہئے اس کا تعلق کشمیرنشین کسی بھی سیاسی گروپ سے ہوگا پارلیمنٹ میںجاکر کشمیر، کشمیری عوام، ان کے مسائل ، معاملات ، سنگین نوعیت کے حالات، اقتصادی زبوں حالی، سیاسی نوعیت کے کچھ حساس معاملات، روزگار اور زمین سے جڑے تحفظات ، سڑک پانی بجلی کے شعبوں کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل کا استحصال وغیرہ معاملات کے بارے میں ان سے کسی مثبت، تعمیری یا تجدیدی رول کی توقع نہیں، یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ایک تلخ سچ ہے جس کا گذرے برسوں کے دوران منعقدہ پارلیمنٹ کے ہر اجلاس میںکشمیر سے تعلق رکھنے والے ممبران کی بے زبانی، بے اعتنائی یا وقت کے زیاں کے مترادف غیر متعلقہ سوالات یا فضولیات کی بحث میں چند منٹ کی حصہ داری پر تکیہ چشم بینا دیکھ چکی ہے۔
جن پارٹیوں کے اُمیدوار میدان میں ہیں اور ان پارٹیوں سے وابستہ لیڈراں کی انتخابی جلسوں سے تقریروں میں معاملات کا جو حوالہ دیاجارہاہے ان میں سے کچھ کا تعلق کشمیرمیں نوجوانوں کے لئے سو فیصد روزگار مخصوص کرنے، زمین کے مالکانہ حقوق کا تحفظ یقینی بنانے، ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ کرنے، کچھ علاقوں کیلئے لداخ اور کرگل ہل کونسل کی طرز پر ہل کونسل کی تشکیل، جموں اور کشمیر خطوں کی آبادیوں کے لئے چھ چھ ماہ تک باری باری پانچ سو اور تین سو یونٹ بجلی مفت فراہم کرنے، بجلی پروجیکٹوں کی واپسی کیلئے جدوجہد کرنے کے علاوہ ان سارے معاملات کو ایوان میں بحث ومطالبہ کا مدعا بنائے جانے کی دہائیوں سے ہے۔
ان معاملات کو پارلیمنٹ میں اُٹھائے جانے کی یقین دہانیوں کا والہانہ خیر مقدم لیکن جو پارٹیاں اب تک زمین پر اپنی موجودگی کے دوران انہی مخصوص معاملات کا سال پر سال گذر جانے کے باوجود کوئی حل تلاش کرنے یا ان کے تعلق سے کوئی مطالبہ دہلی سے منوانے میں ذرہ بھر بھی کامیاب نہیں ہوسکی بلکہ سچ تو یہی ہے کہ ان پارٹیوں نے ان معاملات کو لپ سروس کی حد تک ہی چھوا ہے وہ پارلیمنٹ میں جاکر کس بل بوتے پر ان کا حل منوانے میںکامیاب ہوں گی جبکہ ماضی کی کارکردگی اور پارلیمنٹ میں بزنس کے حوالہ سے معاملات اور طرزعمل کوئی پوشیدہ امر نہیں۔
اس تصویر کے کچھ اور بھی پہلو یا رُخ بھی ہیں۔رائے عامہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے حق اور ضرورت سے انکار کی گنجائش نہیں۔ میدان میں موجود ہر سیاسی پارٹی کا یہی طرزعمل ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ البتہ ایسا کرتے ہوئے اگر تاریخ سے جڑے معاملات اور واقعات کو مفاد پرستی، خود غرضی اور نظریہ بالادستی کے پیش نظر سیاق وسباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کرپیش کرنے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہیگی جیسا کہ فی الوقت ملکی سطح پر کچھ سیاسی اورنیم مذہبی نما سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ملک کی تاریخ اور تاریخ سے جڑے واقعات اور معاملات کے حوالہ سے کیاجارہاہے تو اس انداز فکر اور طرزعمل کو عوامی ذہنوں میں خلفشار ، انتشار ، معاشرتی سطح پر آپسی روابط ، یکجہتی اور یگانگت کو زک پہنچانے کی مذموم کوشش سے ہی جوڑا جاسکتا ہے۔
اس مخصوص انداز فکر اور طرزعمل کو اختیار کرکے نوجوان نسل کو ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے نہ صرف مریض بنایاجارہاہے بلکہ تاریخ کو ایک غلط انداز میں پیش کرکے غلط سمت کی جانب موڑنے نازیوں اور تاتاریوں سے طرزعمل سے عبارت ہی قرار دیاجاسکتا ہے۔ آج کی تاریخ کا الیکشن منظرنامہ کچھ مخصوص معاملات سے جڑا ہوا ہے جن کا تعلق بقول سیاسی پارٹیوں اورآئینی ماہرین کے آئین اور جمہوریت کی بقاء اور تحفظ کو یقینی بنانے کی جدوجہد سے ہے۔ لیکن کشمیرمیںکچھ لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ نیشنل کانفرنس کی قیادت نے مسلم کانفرنس کا نام بدل کر کیوں نیشنل کانفرنس رکھا؟۱۹۴۷ء میں عوام کی رائے جانے بغیر ہندوستان کے ساتھ کیوں الحاق کیاگیا؟ان دونوں سوالوں کو سیاسیات، اخلاقیات، تاریخی پس منظر، قبائلی حملے اور حملے میں شریک مسلح آفریدیوں کی درندگی اور اپنی سرزمین اور اس کے مکینوں کی صحت سلامتی اور بقاء کے تعلق سے کسی نہ کسی کسوٹی پر رکھ کر ہی تو سمجھا او ردیاجاسکتا ہے۔
ٍ حقیقت یہ ہے کہ کشمیرکی سیاسی اُفق کو جو نیا لبادہ زیب تن کرانے کی کوشش کی جارہی ہے اگروہ کامیاب رہی اور کوشش کرنے والے سیاست کار اپنے ان مذموم عزائم اور ارادوں میں کچھ فیصد حد تک ہی کامیاب رہے تو کشمیر تو دفن ہوہی جائے گا لیکن اس کے کھنڈرات سے جو نیا کشمیراُبھرے گا اس کے حدود میں جو ہوں گے ان کی نظریاتی معاشرتی، سیاسی حیثیت اور ہیت ایک مخصوص نظریے کے حامی کلٹ (Cult) کی سی ہوگی۔
ماضی کے کردار اور نریٹو کے حوالہ سے نہ نیشنل کانفرنس اور نہ ہی ۲۰؍سالہ پی ڈی پی جو کانگریس کے بطن سے جنمی کبھی دودھ کی دُھلی تھی، لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان پارٹیوں کے دور اقتدار کے دوران کیا کچھ رول اور کردار اداکیا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ان ادوارمیں آج کی تاریخ میں ان دونوں پارٹیوں کو روایتی یا خاندانی کا سیاسی طعنہ دینے والے انہی پارٹیوں کاحصہ رہے ہیں جبکہ بعض تو قانون سازیہ کے ارکان اور وزارتی عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ اگراُن ادوارمیں ان لوگوںنے پارٹیوں کے اندر سے آواز بلند کی ہوتی تو آج ان کی تنقیدوں اور چلائے جارہے تیروں کو حق بجانب قراردیاجاتا، لیکن پرانی شراب نئی بوتلوں میں انڈیل کر شراب حلال نہیں بن سکتی!