جموںوکشمیر میں جاری الیکشن مہم کے دوران اگر چہ رائے دہندگان کی ایک اچھی خاصی تعداد مختلف نظریات ، عقائد اور باہم متضاد موقف رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں شریک نظرآرہی ہے لیکن کڑی نگاہ رکھنے والے صاحب فہم افراد کا ماننا یہ ہے کہ مختلف وجوہات کی بناپر لوگوں کی اکثریت انتخابی عمل کے حوالہ سے بیگانی نظرآرہی ہے۔
کوئی کسی کو روایتی پارٹی کا اعزاز عطا کرکے خاندانی کے طور پیش کررہاہے تو کوئی کچھ پارٹیوں کو کشمیر کی سرحدوں سے باہر کی پارٹیوں کی اے ، بی ،سی ٹیمیں یا دم چھلہ کے طور پیش کرکے عوام کی نگاہوں میںان کی توقیر کو مشکوک بنارہاہے۔کون پارٹی کیا ہے، موقف ، اپروچ اور نظریہ کیا ہے، روایتی ،خاندانی ہے یا بقول کسی کے پراکسی سب کچھ عوام کی توجہ اورنگاہ میں ہے۔کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے ،نہ ماضی اور نہ ماضی قریب اگر چہ حال فی الحال دعوئوں سے ہی عبارت تصورکیا جارہاہے۔
مختلف سیاستدان اپنے اپنے سیاسی حریفوں کے بارے میں جہاں ان کے ماضی کے رول کو کریدنے کی کوشش کرکے انہیں عوام کا مجرم ٹھہرارہے ہیں تو وہیں پلٹ وار کرکے کچھ سیاستدانوں کی تاجرانہ ذہنیت ، ان کے ماضی اور حال کے حوالوں سے ، کو بے نقاب کررہے ہیں۔
لیکن تعجب تو ان کچھ بیانات سے ہورہاہے جن کا تعلق ایک مخصوص فکر سے وابستہ ایک سیاستدان کے اس بیان سے ہوا کہ ۱۹۴۷ء میں عوام کی رائے جانے بغیر اُس وقت کے قدآور لیڈر نے ہندوستان کے ساتھ جموںوکشمیرکا الحاق کیا اور اس عمل کے صلے میںانہیں (شیخ محمدعبداللہ) کو نئی دہلی نے اقتدار پر بٹھادیا۔دوسرے الفاظ میں آج کی تاریخ میں دہلی کے سب سے قریب اور کئی اعتبار سے پارٹنر تصور کئے جانے والے یہ سیاستدان جموںوکشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کو دبے الفاظ میں چیلنج کرتے ہوئے غالباً یہ کہہ رہے ہیں کہ الحاق ہندوستان سے نہیں پاکستان سے ہوناچاہئے تھا ۔
ایک سیاستدان اگر اپنے خطے کے سیاسی ماضی اور تاریخی اور زمینی حقیقتوں سے لاعلمی کا شعوری یا غیر شعوری اظہار کرے تو اس کے بارے میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اس کا شمار پھر یقینی طور سے سیاسی آوارہ گردوں کی ہی صف میں ہونا چاہئے۔ پھر بھی اگر کشمیرکی تاریخ اور تاریخی حقائق آج کی تاریخ میں جاننے کی کوشش کی جائے تو کوئی حرج نہیں اور اس تاریخ کو جاننے کیلئے بخشی مرحوم کے رو ل اور کردار کو جاننے کی نہیں البتہ ماضی کے ہی حوالہ سے سید میر قاسم کی سوانح داستان حیات کا مطالعہ کے ساتھ ساتھ خاتون قلم کار چتر لیکھا زتشی کی تازہ ترین تصنیف بعنوان شیخ عبداللہ :کشمیرکا پنجرہ بند شیر کا مطالعہ کئی اعتبار سے معلومات میںاضافہ کا موجب بن سکتی ہے۔
ویسے یہ بات عموماً تقسیم کی جارہی ہے کہ جمہوری طرزنظام میںچاہئے فرد ہو یا سیاستدان کو اپنے خیالات ، عقیدوں اور نظریات کاآزادانہ اظہار کا پیدائشی حق ہے۔ لیکن تاریخ کومسخ کرنے اور واقعات کو ان کے سیاق وسباق سے ہٹ کر یا توڑ مروڑ کرکے پیش کرنے کا نہیں کیونکہ ایسی کسی بھی عمل کومجرمانہ اور گھنائونا فعل تصور کیاجارہاہے۔
کشمیرنشین سیاستدان جو بھی رہاہے اور ہے کشمیر کا حقیقی نمائندہ اور ترجمان نہ تھااور نہ ہے۔ان سیاستدانوں جن کاتعلق ماضی اور حال کے حوالہ سے مختلف سیاسی مگر تاجرانہ او رملازمانہ ذہنیت کے نظریات اور عقائد سے ہے نے کشمیراور کشمیریوں کو اب تک کیا دیا ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی دیانتدارانہ کوشش کی جائے تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ گمراہی ، دھوکہ دہی اورکوڈاکرکٹ ، گندگی اور غلاظت سے عبارت کلچر کی معاشرتی سطح پر پیداوار میں وہ یکتا رہے ہیں۔
بے شک کسی نے اندرونی خودمختاری کا نعرہ دیا، کسی نے سیلف رول کی ڈھولکی بجائی، کسی نے علیحدگی پسندی کے نام پر آزادی کی خون سے لت پت تحریک کی سرپرستی کی، کسی نے سبز رنگ کا پرچم تابوتوں پر رکھ کر تجارت کی، کسی نے اپنے اپنے مخصوص ادوار میںحاصل اختیارات اور طاقت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے آئینی ضمانتوں میںدراڑیں ڈالے جانے کی مسلسل وارداتوں پر نہ صرف خاموشی اختیار کی بلکہ عوام کے وسیع تر حقوق اور مفادات کو سرنڈر کرکے اپنے لئے تحفظ اقتدار کی ضمانت حاصل کی، غنڈہ گردی ،لاقانونیت، اندھی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر جمہوریت کا قتل، اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کیلئے فراڈ الیکشن کا سہارا، کسی نے علیحدگی پسند کیمپ کے ساتھ وابستگی کے دوران ’’ قابل حصول وطنیت‘‘ کا نعرہ بلند کیا، کوئی بحیثیت وزیر اس بات پر ہمہ وقت ماتم کناں رہا کرتا کہ ریاست کاگورنر نان مسلم، چیف سیکریٹری نان مسلم، چیف جسٹس نان مسلم، انتظامیہ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز بیروکریٹ نان مسلم، پولیس کا سربراہ نان مسلم لیکن جب دہلی کے ایک سیاستدان نے ایک کروڑ ۲۰؍ لاکھ کی ادائیگی کے عوض اسی سیاستدان کو ’’کشمیرمیںہندوستان کا بھگوان‘‘ قراردیا تو اس کے سارے نان مسلم، مسلمان ہوگئے؟
کشمیر نشین سیاستدانوں کا کوئی بھی پہلو عوام کی نگاہوں سے اوجھل نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ الیکشن مراحل کے دوران یہی لوگ انہی سیاستدانوں کے حق میں اپنا حق رائے دہی کا استعمال کرکے انہیں بااختیار اور فیصلہ ساز بھی بناتے رہے۔ البتہ سیاستدان جو کچھ بھی صحیح یا غلط کردارادا کرتے رہے اس نے لوگوں کی اکثریت کو اِن سے متنفر اور بدظن بنایا ہے۔ انہیںاب قابل بھروسہ اور قابل اعتبار تصور نہیں کیا جارہا ہے بلکہ ان میں سے کئی ایک کو نجی محفلوں میں کوٹ بدلو اور لوٹا کہاجارہاہے۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں جب کوئی سیاستدان اپنے کسی سیاسی مخالف کے بارے میں بدکلامی کرتا ہے کچھ راز افشا کرتا ہے تو لوگ سن کر محذوظ ہوتے ہیں۔ ویسے جن رازوں کو زبان دی جارہی ہے وہ پہلے سے عوام کی علمیت میںہوتے ہیں البتہ سیاستدانوں کے منہ سے ان کا اعادہ مہر تصدیق ثبت کرنے کے برابر ہے۔ کچھ عرصہ سے ایک مخصوص سیاستدان شیخ محمدعبداللہ، مفتی خاندان، کانگریس وغیرہ کے خلاف بہت کچھ کہتا او راپنے مجمع کو سناتا رہا ہے لیکن مفتی خاندان سے وابستہ ایک لیڈر جو سرینگر پارلیمانی حلقہ سے میدان میں ہیں نے کچھ ایسا پلٹ وار کردیا کہ معلوم نہیں کہ سہنے کی اُس میں طاقت ہے کہ نہیں!سوال کیا کہ وہ بتائیں کہ دس ہزار کروڑ کا سرمایہ مذکورہ سیاستدان نے کیسے اور کن طریقوں کو بروئے کار لاکر حاصل کیا، جواب تو بنتا ہے؟