پنجاب کو چھوڑ کر باقی ۴؍ ریاستوں میں شاندار جیت کو اگلے قومی سطح کے پارلیمانی الیکشن کے حوالہ سے کچھ حلقے ریہرسل تصور کررہے ہیںجبکہ کچھ حلقے کورپٹ، بدعنوان، مافیاز ذہنیت کے حامل سیاست کاروں اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں کے خلاف فتویٰ یا عوامی سطح پر سبک رفتاری سے مستحکم ہوتے جارہے رجحانات کی پہلی سیڑھی قراردیاجارہاہے۔
ہندوستان ایک کثیر المذہبی، لسانی ، تہذیبی اور نظریاتی ملک ہے لیکن یہی کثرت میں وحدت کا بھی امین سمجھاجارہاہے۔ ماضی میں جس انتخابی سیاست کی بُنیاد خود سیاستدانوں نے رکھی اور اس کو بڑھاوا بھی دیتے رہے، جس انتخابی سیاست کی بُنیاد مذہبی عقیدے، ذات اور بات پر رکھی جاتی رہی اب تیزی سے بدلتے حالات کے تناظرمیں رائے دہندگان کی سوچ اور اپروچ اس سے ہٹ رہی ہے بلکہ وہ اس نوعیت کی نظریاتی اور طبقاتی سیاست سے آہستہ آہستہ کنارہ کش ہوتے جارہے ہیں۔
رائے دہندگان جہاں کورپٹ اور مافیاز طرز کی ذہنیت کے حامل سیاستد کاروں سے چھٹکارا پانے کی جدوجہد کررہے ہیں وہیں ان کی ترجیح اب بچوں کی بہتر تعلیم، نشو ونما، صحت عامہ، سڑک ، بہتر رسل ورسائل، مواصلات کی جدید ترین سہولیات، کورپٹ اور بدعنوان طرزعمل سے پاک وصاف روزگار کا حصول بنتی جارہی ہے۔ یہ دعویٰ تو نہیں کیاجاسکتا ہے کہ ملک سے انتظامی یا عوامی سطح پر کورپشن کا خاتمہ ہوچکاہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ابھی کورپشن موجود ہے اور انتظامیہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ کورپٹ اور بدعنوان اہلکار بھی موجود ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے عنصر کے خلاف شکنجہ کستاجارہاہے، اس کا بیشتر کریڈٹ ای… گورننس کو دیاجاسکتاہے جبکہ کریڈٹ کا دوسرا حقدار وہ نگرانی ہے جو قائم کی جارہی ہے اور جس نگرانی کو مستحکم بنانے کیلئے ناقابل تو ڑ اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔
حالیہ الیکشن نتائج کا تجزیہ کرنے کیلئے اس کے کئی ایک پہلو سامنے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر بہوجن سماج پارٹی کی خاتون لیڈر مایاوتی کی الیکشن میں پارٹی کی شرمناک شکست پر جو ردعمل سامنے آیا ہے بین السطور جائزہ لینے پر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسے دُکھ اور صدمہ اس بات کا ہے کہ اب کی بار رائے دہندگان (جن طبقوں کو نظریاتی بُنیادوں پر وہ اپنا تسخیر شدہ تصور کرتی رہی ہے )نے روایتی خطوط پر ووٹ نہیں دیا۔ اس تعلق سے وہ مسلمان رائے دہندگان سے شاکی ہے کہ انہوںنے اس کی پارٹی کے اُمیدواروں کی حمایت نہیں کی ان سے کوئی یہ سوال تو کرے کہ جب وہ اقتدار میں تھی اور اقتدار کی بدمستی میں غوطے لگارہی تھی اور جگہ جگہ کروڑوں روپے کے اخراجات سے ہاتھیوں کے مجسمے نصب کراتی جارہی تھی تو مسلمانوں کیلئے اس نے کیا کیا؟ کس مسلم سماج کی ترقی فلاح اور روزگار کے حصول کیلئے کوئی کردارداکیا۔ سچ تو یہ ہے کہ مایاوتی ہندوستان کی وہ سیاست کار ہے جو لوٹ، کورپشن اور ذات پات کے نام پر لوگوں کے جذبات کا بدترین استحصال کرنے کیلئے بدنام زمانہ ہے۔
پنجاب اور اُتراکھنڈ دو دیگر مثالیں ہیں جن ریاستوں کی کانگریس لیڈر شپ نے اندرون خانہ محاذآرائی کا بازار ہی سالہاسال کے دوران گرم نہیں رکھا بلکہ اپنی اس اندرونی چپقلش اور کشاکشی کو عوام کے درمیان بھی لے جایاگیا۔ کورپشن، مافیاز کی سرپرستی اور دیگر لٹیرانہ طور طریقے روارکھنے کے باوجود رائے دہندگان سے یہ توقع کیوں کررکھی جاسکے کہ وہ ان معاملات کی چشم پوشی کرکے پھر استحصا لیوں کو اپنا منڈیٹ تفویض کریں۔
کیجریوال کی عآپ نے اسی کشاکشی کا فائدہ اُٹھایا، لوگوں تک اپنا پیغام اچھی اور موثر ڈھنگ سے پہنچایا، پنجاب پر قبضہ کیا اور اب نظریں گجرات، ہماچل پرہیں جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک مضبوط ومستحکم گڑھ یا قلعہ میں دراڑیں ڈالنے کیلئے اُترپردیش کا بھی رُخ کررہی ہے۔
لیکن ان سب سے علیحدہ بی جے پی ہے جس کی قیادت رائے عامہ (رائے دہندگان) کو اپنی طرف بدستور متوجہ رکھنے میںکامیاب ہے اور رائے عامہ نے بھی اس پارٹی کے حق میں اعتماد برقرار رکھنے کیلئے کچھ پیمانے اورمعیارات مقرر کررکھے ہیں جن پیمانوں اور معیارات پر حکمران جماعت کو پورا اُترتا دیکھ کر اس کے حق میں منڈیٹ تفویض کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس منڈیٹ اور اعتماد سے حوصلہ پاکر باقی ریاستوں میں پارٹی اور زیادہ فعال اور متحرک ہوتی جارہی ہے۔
اس تعلق سے جموں وکشمیر کا تذکرہ کرنا بے محال نہیں ہوگا۔ انتخابی نتائج سامنے آتے ہی پارٹی کی قیادت نے اپنے اس ہدف کا پھر سے اعادہ کیا کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوگی اور اگلی حکومت کی تشکیل پارٹی کے ہی ہاتھوںہوگی۔ یہ وقت ہی بتادے گا کہ آنے والے کل کیا ہوگا، البتہ کامیابیوں کے زینے پر چڑھ چڑھ کر کسی بھی نئی توقع اور اُمید اکا اظہار فطرتی ہے، اس تعلق سے پارٹی کی ریاستی قیادت کچھ غلط بھی نہیں ہے۔
کشمیرمیںپارٹی پیش قدمی کرتی نظرآرہی ہے جبکہ جموں میں یہ مضبوط تو ہے لیکن وہ مضبوطی نہیں جو گذشتہ انتخابات کے حوالہ سے نظرآرہی تھی جبکہ نتائج کے حوالہ سے بھی زمینی سطح پر بھی موجود تھی۔ اس کمزوری کی کچھ وجوہات ہیں جن پر قابو پانے کیلئے پارٹی کو ابھی سے فعال اور متحرک ہونا پڑے گا۔ جن حلقوں میں دوریوں اور فاصلوں کا احساس ہے ان حلقوں کو مطمئن کرنا ہوگا،اور جو خامیاں ہیں انہیں بھی درست کرنے کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ انتخابات صرف کسی نظریاتی یا عقیدے کی بُنیاد پرنہیں جیتے جاسکتے ہیں، جیت کیلئے سب کا ساتھ اور سب کا اعتماد از بس لازمی ہے۔