کچھ وقت سے عوامی اور کچھ سیاسی حلقوں میں اس بات پر لے دے ہورہی ہے بلکہ کسی حد تک حیرانی کا بھی اظہار کیاجارہا ہے کہ کشمیرنشین کم وبیش سبھی قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں لوگوں کو درپیش سنگین نوعیت کے مسائل جن کا تعلق کچھ حساس سیاسی نوعیت کے معاملات سے ہیں، اسمبلی کی تشکیل اور مابعد اقتدار میں آنی والی حکومت کو حاصل فیصلہ سازی کے حوالہ سے اختیارات سے ہے، لوگوں کی معیشت کے تعلق سے بڑھتے جارہے معاملات سے ہے، بیروزگاری، ترقیاتی اور بھرتی عمل میں خطوں کے درمیان بڑھتی عدم مساوات وغیرہ ایسے اور بھی کئی معاملات سے ہے پر پُراسرار خاموشی کیوں۔
یہ حلقے اس بات کو خاص طور سے نوٹ کررہے ہیں کہ چاہے این سی ہے، پی ڈی پی ہے، اپنی پارٹی ہے، پیپلز کانفرنس ہے یا اورکوئی صرف اور صرف الیکشن کے فوری انعقاد پر بات کررہی ہیں ، کوئی اس حوالہ سے حکمران جماعت بی جے پی کو یہ کہکر نشانہ بنارہاہے کہ وہ جموں وکشمیر میں چونکہ کمزور وکٹ پر کھڑی ہے لہٰذا وہ الیکشن کرانا نہیںچاہتی ہے اور جموںوکشمیر پر پراکسی کے دروازے سے حکومت کو کنٹرول کررہی ہے، الیکشن کا مطالبہ تو کیاجارہا ہے لیکن ریاستی درجہ کی بحالی کوغالباً ثانوی درجہ میںدھکیل دیاگیا ہے۔ الیکشن کے انعقاد کے حوالہ سے یہ سبھی پارٹیاں ایک دوسرے کو مختلف طریوں سے نشانہ بنارہی ہیں، کوئی خود کو دودھ کا دھلا کے طور پیش کررہی ہے تو کوئی کسی کو خاندانی کہکر ہدف ملامت بنارہی ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ پارٹیاں عوام کو درپیش مسائل اور معاملات پر مہر بہ لب ہیں۔ کیا یہ کسی مخصوص سیاسی مصلحت کے پیش نظر ہے یا ان پارٹیوں کی اپنی اپنی کوئی مجبوری ہے، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے یا یہ پارٹیاںخود ۔ البتہ عوام بدظن اور متنفر ہوتے جارہے ہیں۔ اس بدظنی کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ان پارٹیوں سے وابستہ قیادت نے اپنی حریف پارٹیوں کے بارے میں جو طرز خطاب اختیار کررکھا ہے وہ جہاں ایک دوسرے کی کردار کشی اور طعنہ زنی سے عبارت ہے وہیں اس مخصوص طرز عمل سے لوگوں میں ان کے تئیں رویہ میں منفی تبدیلی آرہی ہے اور اب اکثریت انہیں ہوس اقتدار، بھوکے سیاست کار اور نفسیاتی اعتبار سے بدترین استحصالی تصور کررہی ہے۔
کچھ اہم معاملات کے بارے میں دو مخصوص سیاستدانوں کے حالیہ بیانات یا دعوئوں کا حوالہ دینا غالباً بے محل نہیں ہوگا۔ سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد اپنی پارٹی کے حق میں جموںوکشمیر کے طول وارض میںزبردست تشہیری مہم چلا رہے ہیں، بڑے جلسوں کا اہتمام کیاجارہاہے جن سے خطاب کے دوران اب تک متعدد مرتبہ غلام نبی آزاد بھی مقامی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے علاقائی اور عوام کو درپیش مسائل اور معاملات بشمول ۳۷۰؍ پر خاموشی اختیار کرنے پر سرزنش بھی کرتے رہے اور حیرانی کا اظہار بھی۔
غلام نبی آزادنے اپنے ایک حالیہ بیان میں دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی لوگوں کے حقوق بہ شمول دفعہ ۳۷۰؍کے تحفظ اور بحالی کیلئے عہد بند ہے۔ لوگوں کی زمین سے بے دخلی کے خلا ف بھی جدوجہد کے تعلق سے عہد بند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب پارٹیاں ۳۷۰؍ پر خاموش ہیں۔ ’’وعدہ کرتا ہوں کہ میری پارٹی اقتدارمیںآتی ہے تو زمین سے بے دخلیوں کو ختم کردیاجائے گا، روشنی ایکٹ کو بحال کیاجائیگا، زمین پر لوگوں کے ملکیتی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور سرکاری نوکریوں کو مقامی نوجوانوں کے لئے وقف رکھاجائے گا‘‘۔
غور طلب بات یہ ہے کہ انہی کچھ معاملات کے حوالہ سے اپنی پارٹی کے امیر اعلیٰ سید الطاف بخاری مسلسل طور سے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ مرکزی قیادت کے ساتھ بات کرکے انہوںنے زمین کے ملکیتی حقوق کا تحفظ نہ صرف یقینی بنالیا ہے بلکہ سرکاری نوکریوں میں مقامی نوجوانوں کی سو فیصد بھرتی کو بھی یقینی بنایاہے۔ آزاد صاحب دعویٰ کررہے ہیں کہ زمین پر ملکتی حقوق اور سرکاری نوکریوں میں مقامی نوجوانوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایاجائے گااور اس کے لئے پارٹی کی جدوجہد جاری رہیگی تو سید الطاف بخاری دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوںنے مرکزی لیڈر شپ سے معاملات طے کرکے ان دونوں مخصوص اشوز کے بارے میں یقین دہانی اور تحفظات حاصل کرلئے ہیں۔اب ان دو سیاستدانوں میں سے کون کس اشو کے بار ے میں سچ بول رہا ہے اور کون کس اشو کے تعلق سے غلط۔
لوگ بہتر سوجھ بوجھ اور فہم رکھتے ہیں تو وہ از خود ان دونوں دعوئوں کے تناظرمیں صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ البتہ آزاد صاحب کا اپنے جلسوں میں یہ مقرر بیان کہ این سی پی ڈی پی وغیرہ ۔ اقتدار کی بھوکی ہیں کے ساتھ دو مخصوص وجوہات کی بنا پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ پہلی یہ کہ ہر سیاستدان اور ہرسیاسی پارٹی چاہے وہ دودھ کی دھلی ہونے کی کتنی ہی دعویدار ہو جو کچھ کررہی ہے اس کا تعلق حصول اقتدار سے ہی ہوتا ہے اور اگر اقتدار حاصل کرنے میںکامیاب ہوجاتی ہے تو پھر دوسری ترجیح اپنے اقتدار کو طول دینے اور تحفظ دینے کی بنتی ہے۔ آزاد صاحب خود بھی کانگریس کے ساتھ اپنی وابستگی رکھتے ہوئے انہی راستوں کو اختیار کرتے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے بالا ایوان تک رسائی حاصل کرنے کیلئے وہ ماضی میں نیشنل کانفرنس کی سیڑھی بھی تو استعمال کرچکے ہیں۔ لہٰذا کوئی سیاستدان پرسائی اور پرہیز گاری کا دعویٰ کرتا پھر ے کچھ ہضم نہیںہوتا۔
تاہم سید الطاف بخاری کے اس نظریے سے اختلاف کی گنجائش نہیں کہ عوامی مسائل کا جو بھی حل یا ازالہ ہے وہ نئی دہلی کے ہاتھوں سے ہی ممکن ہے۔ اس ضمن میں اگر کوئی یہ فرض کررہاہے کہ وہ اقتدارمیں آکر اپنے طور سے سب کچھ حاصل کرے گا اور حتمی فیصلہ ساز کی حیثیت کے طور اُبھر کرسامنے آئے گا تو وہ خودفریبی میں مبتلا ہے۔ فیڈرل ڈھانچہ کے تناظرمیں سٹیٹ کی کوئی علیحدہ حیثیت نہیں ہے البتہ اختیارات اور فیصلہ سازی کے تعلق سے سسٹم موجود ہے جس میں دونوںکی ذمہ داریوں کاواضح طور سے تعین پہلے سے موجود ہے۔