علیحدگی پسند تحرک کی روح رواں ’حریت کانفرنس‘ جس کی ممنوعہ جماعت اسلامی ایک اہم ترین بلکہ فیصلہ حیثیت کی حامل اکائی شمار ہوتی تھی سے وابستہ کچھ لیڈر اں نے حالیہ ایام میں اپنے سابق نظریات، آئیڈیالوجی اور الحاق کے حوالہ سے سالمیت کو چیلنج کرنے کے موقف سے تائب ہوکر قومی دھارے سے وابستہ اپنی پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے اور کہا ہے کہ ’’جموں وکشمیر کے لوگوں کا مستقبل ہند یونین کے ساتھ ایک حقیقت ہے تاکہ بقول ان کے نوجوان نسل کے مستقبل کا تحفظ یقینی بنایاجاسکے‘‘۔
اپنی پارٹی کے سرپرست اعلیٰ سید الطاف بخاری نے کچھ ہفتے قبل علیحدگی پسند جماعتوں سے وابستہ افراد کو اپنی پارٹی میں شمولیت کی یہ کہکر دعوت دی تھی کہ ان کی پارٹی کے دروازے ہر اُس شخص کیلئے کھلے ہیں جو ہندوستان کی سالمیت اور الحاق میںیقین رکھتا ہے۔ایک پہلو سے دیکھاجائے تو جموںوکشمیر باالخصوص کشمیرکے مخصوص سیاسی منظرنامہ کے تعلق سے یہ ایک اہم پیش رفت تصور بھی کی جاسکتی ہے اور قراربھی دی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ جموںوکشمیر باالخصوص کشمیر اور اس کی آبادی ۷۵؍ سال سے باالعموم اور گذشتہ ۳۵؍ سال سے باالخصوص بے چینی، عدم سیاسی استحکام، معاشی بدحالی، گولیوں کی گن گرج، ہڑتالی سیاست، سنگ باری، قتل وغارت ایسے مکدر ماحول سے جوجھتی چلی آرہی ہے۔اس حوالہ سے سنگ باری، ہڑتالی سیاست اور سالمیت کو چیلنج کرنے والی قوتوں کا اپنے سیاسی منشور سے تائب ہوکر مین اسٹریم سے وابستہ ہونے کا فیصلہ اہم بھی ہے اور خیر مقدم کا بھی مستحق ہے۔ٍ
اپنی پارٹی ہی کو کیوں سابق علیحدگی پسند حضرات اپنی شرکت کے لئے ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ سوال تو کیا جارہاہے البتہ جواب حاصل کرنے کیلئے وقت کی کوئی قید نہیں البتہ یہ سوال کیاجارہاہے کہ جس علیحدگی پسند گروپ یا بحیثیت اکائی جماعت کو کشمیرمیں دہشت گردانہ سرگرمیوں کو تقویت پہنچانے ، ان سرگرمیوں کیلئے فنڈ اکٹھا کرنے سے لے کر تقسیم کرنے، منی لانڈرنگ سے وابستہ سرگرمیوں اور تخریب کاری میںملوث ہونے کی پاداش میں ممنوع قراردیاگیا ہے، ان کے اثاثے سربہ مہر کرکے ضبط کئے جارہے اب کسی قومی دھارے سے وابستہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے سے دودھ کے دھلے کیسے بن سکتے ہیں۔
علیحدگی پسند جماعتوںبشمول جماعت اسلامی پر پابندی سے متعلق مرکزی سرکار کے حکم نامے میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی کہاگیا تھاکہ ’’یہ جماعتیں خطے میں تخریبی سرگرمیوں میںملوث ہیں، ان کے علیحدگی پسندوں اور دہشت گرد گرپوں کے ساتھ روابط ہیں اور جموںوکشمیر کے ہند یونین کے ساتھ الحاق کو چیلنج کررہی ہیں‘‘۔
اس مخصوص حکم نامہ کے پس منظرمیںسنجیدہ فکر اور حساس حلقے باالخصوص وہ جو قومی دھارے سے بغیر کسی سوال اور اگر مگر کے وابستہ رہے ہیں اور مختلف طریقوں سے عذاب اور عتاب بھی سہتے رہے ہیں یہ سوال کررہے ہیں کہ جماعت از خود کوئی وجود نہیں رکھتی، جماعت افراد اور گرہوںکا ایک مجمعہ ہے اور یہی مجمعہ پارٹی کہلاتی ہے، افراد اس کی سرگرمیوں کیلئے روڈ میپ تیارکرتے ہیں،یہی افراد یا افرادکا مجمعہ پارٹی کیلئے فنڈ ز کا بندوبست کرتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ یہ ساری سرگرمیاں جماعت کے نام پر تو کی جارہی ہیں لیکن جب جماعت کو ممنوعہ قرار دیاجاتا ہے تو کیا ایسے حکم ناموں کا اطلاق صرف نام کے حوالہ سے جماعت پر ہوتا ہے جبکہ جماعت سے وابستہ افراد اس نوعیت کے سرکاری حکم نامہ سے مستثنیٰ کیسے قرارپاسکتے ہیں۔کیا ممنوعہ احکامات کی روشنی میں حکم نامہ میںکوئی ایسی شق موجود ہے جس کی رئو سے ممنوعہ قرار پارہی جماعت سے وابستہ کوئی رکن یا ارکان پر مشتمل گروپ ممنوعہ احکامات کے اطلاق کے دائرے میں نہیں آتے اور کیا جماعت کو ممنوعہ قرار دیئے جانے کے ساتھ ہی انہیں آزاد اور دودھ کا دھلا تصور کرنے کی چھوٹ ہے؟
اگر امر یہی ہے اور کسی جماعت کو ممنوعہ قرار دیئے جانے کے بعد اس سے وابستہ افراد دودھ میں دھلے تصور کئے جاتے ہیں تو پھر گذرے چار پانچ برسوں کے دوران انہی کی ملکیت کے اثاثوں، زمینوں، املاک، جائیدادوں اور بینک کھاتوں کو بہ حق سرکار ضبط کرنے کی ساری کارروائیاں کیا غیر موثرنہیں ہوتی۔اس کے علاوہ جو لوگ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ اپنے سابق سیاسی نظریات، موقف اور علیحدگی پسند آئیڈیالوجی سے تائب ہوکر ہی قومی دھارے سے وابستہ ہورہے ہیں کے حوالہ سے کون سی ضمانت اور اطمینان ہے کہ وہ فی الوقت چڑھتے سورج کی پوجا کا ڈھونگ نہیں رچارہے ہیں۔
خدا کرے کہ یہ لوگ واقعی تائب ہوں اور اپنی زندگیوں کیلئے ایک نیا اور پُرسکون سفر شروع کریں۔ لیکن آبادی کے وہ نفوس جو ۳۵؍ سال کے دوران ان مخصوص نظریات کے حامل لوگوں کا مختلف طریقوں سے نشانہ بنتے رہے یاان کی ایماء پر نشانہ بنائے جاتے رہے اور جن مصائب کا وہ سامنا کرتے رہے ان کے ۳۵؍ سالہ دُکھ درد، تکالیف ، مصائب، گھروں کی بربادی، لخت جگروں کی شہادتیں ، ہزاروں کی تعداد میں یتیمی کا درد،ایسی روح فرسا تکالیف کا مداوا کون کرے اور کیسے کیاجائے، کشمیربحیثیت مجموعی ان سارے سوالوں کا جواب تو مانگتا ہے۔
یہ اور اس نوعیت کے کئی دوسرے چبھنے والے سوالات کا رُخ ان قومی دھارے سے وابستہ جماعتوں کی قیادت کی طرف بھی ہے جو گلے میں مالائیں پہنا کر فوٹو سیشن منعقد کررہی ہیں،جن کی صفوں میں کچھ سابق عسکری کمانڈر یہ نیا چوغہ پہن کر بحیثیت سیاسی لیڈر کے جلوہ گر ہیں، وہ بھی کسی کسی صف میںنظرآرہے ہیں جوبحیثیت سرکاری ملازم کورپشن اور ملٹی کروڑ دھاندلیوں میں سراپا ملوث سمجھے جاتے رہے ہیں، وہ بھی صف میں کھڑے نظرآرہے ہیں جو کسی نہ کسی حوالہ سے ’حوالہ‘ کا روبار سے مبینہ طور سے ملوث سمجھے جاتے رہے ہیں۔ اگرانہی لوگوں کے سروں پر ’نیا کشمیر‘ کا تاج پہنانا مقرر ہے تو پھر اس کشمیر کا خداہی حافظ ونگہبان ہے۔