پارلیمنٹ میں پیش عبوری بجٹ پر سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کی جانب سے حسب روایت ملا جلا ردعمل ظاہر کیاجارہاہے۔ کوئی بجٹ کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتا نظرآرہا ہے تو کوئی مایوسی کو زبان دیتا سنا جارہاہے ، کوئی بجٹ تجاویز کو مستقبل کی ترقیاتی منظرنامہ کے حوالہ سے اختراعی قرار دے رہاہے تو کچھ اپنے اپنے مخصوص سیاسی نظریات کے تناظرمیں اپنا اپنا ردعمل ظاہر کررہے ہیں۔
اس حوالہ سے جموں وکشمیر کے لئے بھی ایک عبوری بجٹ کا ایک اقتباس پارلیمنٹ میں پیش کیاگیا جس میں اور باتوں کے علاوہ یوٹی کیلئے تقریباً ۷۴؍ہزار کروڑ روپے مختص رکھنے کی تجویز ہے جبکہ لداخ یوٹی کیلئے ۵؍ ہزار ۹؍سو ۵۸؍کروڑ روپے مختص رکھنے کی تجویز ہے۔ جموںوکشمیر یوٹی بجٹ میں پانچ سو کروڑ روپے کی خطیر رقم دریائے جہلم ؍توی پروجیکٹ کی مزید ترقی کیلئے مخصوص کئے جارہے ہیں۔
جموںخطے میں زیر تعمیربجلی پروجیکٹوں کیلئے بھی اچھی خاصی رقم مخصوص کی جارہی ہے۔ ۸۰۰؍ میگاواٹ صلاحیت والے ریٹل پروجیکٹ کیلئے ۴۴۔۴۷۶؍ کروڑ روپے، کوار پروجیکٹ کیلئے ۲۳۔۱۷۱؍کروڑ اور کائرا پروجیکٹ جو ۶۲۴؍ میگاواٹ پیداواری صلاحیت کا ہوگا کیلئے ۱۳۰؍ کروڑ روپے مخصوص رکھے جارہے ہیں جبکہ یوٹی میںمرکزی سکیموں کی عمل آوری کیلئے بجٹ میں ۳۵؍ہزار ۶۱۹ کروڑ روپے مخصوص رکھنے کی تجویز ہے۔
جموں وکشمیر یوٹی کیلئے بجٹ تجاویز مرتب کرتے وقت کن امورات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا اس بارے میںکچھ نہ واضع ہے اور نہ ہی قطعیت کے ساتھ کچھ کہا جاسکتا ہے البتہ جو کچھ سامنے آیا ہے وہ بھی مختلف نوعیت کے ابہامات کے دائروں میں بندھا نظرآرہاہے۔ جہلم ؍توی پروجیکٹ کی ترقی کیلئے گذشتہ کچھ برسوں سے مسلسل رقومات بجٹ میں مخصوص رکھی جارہی ہے اور اب کی بار بھی ایساہی کیاگیا ہے ۔ بے شک یہ دونوں خوبصورتی کے حوالہ سے اہم پروجیکٹ کہے جاسکتے ہیں لیکن جب بھی یہ پروجیکٹ اپنے منطقی انجام تک پہنچائے جائیں گے اس کے بعد ان سے روزگار وغیرہ کے حوالہ سے یوٹی ؍ریاست کوحاصل کیا ہوگا اگر چہ فوری طور سے آبادی کے مختلف طبقوں سے وابستہ ہنرمند اور غیر ہنر مند چند سو افراد کو روزگار فراہم ہوگا۔ تاہم سنجیدہ سیاسی حلقے ان دونوں پروجیکٹوں کو سیاسی یا سیاست زدہ پروجیکٹ کے زمرے میں رکھنے پر بضد ہیں۔
بجٹ میں تین بجلی پروجیکٹوں پر جاری کام کیلئے بحیثیت مجموعی ۶۷۔۷۷۷؍ کروڑ روپے مخصوص رکھے جارہے ہیں ، یہ تینوں پروجیکٹ جموں خطے میں تعمیر کئے جارہے ہیں، ان پروجیکٹوں کی تکمیل سے بجلی کی مجموعی پیداوار میں اضافہ ضرور ہوگا لیکن یوٹی کے صارفین کو جو ایک عرصہ سے بجلی کے سنگین بحران سے جھوج رہے ہیں اور یہ بحران ہر گذرتے دن کے ساتھ گہرا اور تکلیف دہ بنتا جارہاہے کیلئے کسی بھی راحت کا پیغام نہیں، جس کا ثبوت بجلی پروجیکٹوں کے حوالہ سے وہ سارے مفاہمت نامے ؍معاہدے ہیں جوان پروجیکٹوںکو ہاتھ میں لینے سے قبل ہی کئے جاتے رہے اور جن معاہدوں کی روشنی میںنہ صرف تعمیراتی ایجنسیوں کو مختلف نوعیت کی مراعات سے نواز گیا ہے بلکہ ۱۲؍ فیصد رائیلٹی کے طور بجلی فراہم کرنے، استعمال میںلائے جارہے پانی کے چارجز کی ادائیگی سے مستثنیٰ قرار دیئے جانے اور آنیو الے چالیس برسوں تک جوں کا توں حیثیت برقرار رکھنے کی شقیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں جبکہ ابھی حالیہ ایام میںہی ریٹل پروجیکٹ سے حاصل بجلی کو راجستھان منتقل کرنے سے متعلق بھی معاہدہ طے پایاگیا۔
لداخ اور جموں وکشمیریوٹی کیلئے جو بجٹ تخمینہ جات پیش کئے گئے ہیں ان کا بھی جب قریب سے موازنہ کیاجاتا ہے تو یہ بات منکشف ہوجاتی ہے کہ کرگل اور لداخ پر مشتمل دو ضلعوں جن کی آبادی ۴…۲؍۱ ۴ لاکھ کے درمیان ہے کیلئے فی ضلع ۲۹۷۹؍ کروڑ روپے مختص رکھے گئے ہیں جبکہ جموںوکشمیر یوٹی کے ۲۰؍ ضلعوں کیلئے فی ضلع کی اوسط مشکل سے ۳۶۶۴؍ کروڑ روپے کے قریب ہے جو ان ضلعوں کی آبادی کے حجم کے تناسب کے حوالہ سے لداخ کے دو ضلعوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
ناقدین کاکہنا ہے کہ بجٹ میں روزگار، روزگار کے تعلق سے پیداواری شعبوں کی ترقی، ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کی سمت میں اقدامات، پانی کے وسائل کو تحفظ او رواٹر باڈیز کو آلودگی ، کشافت اور غلاظت کے ساتھ ساتھ غیر قانونی تجاوزات سے محفوظ رکھنے کے حوالہ سے غالباً کوئی تذکرہ نہیں ملا اور نہ ہی رسل ورسائل اور مواصلات کے نیٹ ورک کے تعلق سے کسی نئے اقدام کی نشاندہی ہی نظرآرہی ہے۔
بہرحال چونکہ بجٹ کی مکمل تفصیلات باالخصوص شعبہ جاتی تفصیلات کا ابھی انتظار ہے لہٰذا حتمی طور سے اس کے بارے میں حتمی رائے زنی مناسب نہیں۔ ان تفصیلات کا انتظار رہے گا جن کے بارے میں توقع ہے کہ اگلے چند دنوں میں جب مکمل اور تفصیلی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش ہوگی تو کچھ اشارے ضرور سامنے آجائیں گے۔ اُس وقت تک جو کچھ بھی ردعمل کے طور کہا جائے گا وہ قیاسات اور مفروضوں پر ہی مبنی ہوگا۔ البتہ سماج کا ہر حلقہ یہی توقع کررہاہے کہ یوٹی کیلئے پیش کی جارہی بجٹ تجاویز میںروزگار سے متعلق مقامی آبادی کی خواہشات اور ضروریات کا احترام کرتے ہوئے مناسب اقدامات اُٹھانے کی جانب روڈ میپ مرتب کرنے کو ترجیحات میں رکھا جائے گا تاکہ بے چینی اور تذبذب کی اُس مخصوص حالت کا خاتمہ ہوگا جو اب کچھ مدت سے تعلیم یافتہ ، ہنرمند اور غیر ہنرمند طبقہ میں ہے جو ردعمل میں’’ برین ڈرین‘‘کا بھی پڑے پیمانے پر موجب بنتا جارہا ہے۔ بحیثیت مجموعی جو کچھ بجٹ کے نام پر پیش کیا گیا اس کو روایتی ہی قراردیاجاسکتا ہے۔