نئی دہلی// وزیر اعظم نریندر مودی نے بچوں کو امتحانی دباؤ سے آزاد کرنے میں والدین اور اساتذہ کے کردار پر زور دیتے ہوئے آج کہا کہ والدین کو اپنے بچے کی کامیابیوں کو اپنا وزیٹنگ کارڈ نہیں بنانا چاہئے اور اساتذہ کو اپنا کام صرف جاب نہیں بلکہ طلباء کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے ۔
یہاں بھارت منڈپم میں پریکشا پہ چرچا (پی پی سی) کے 7ویں ایڈیشن کے دوران طلبائ، اساتذہ اور والدین کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مسٹر مودی نے بچوں کو سکھایا کہ وہ اپنے ہم جماعتوں اور دوستوں کے ساتھ لین دین کا رویہ نہ رکھیں، بلکہ ان کی کامیابیوں پر فخر کریں۔ خوشی منائیں اور خود آگے بڑھنے کے لیے اس سے تحریک لیں۔ وزیراعظم نے اس موقع پر لگائی گئی آرٹس اینڈ کرافٹس کی نمائش کا بھی دورہ کیا۔
نمائش میں طلباء کی تخلیقات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ڈسپلے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ نئی نسلیں مختلف موضوعات کے بارے میں کیا سوچتی ہیں اور ان کے پاس ان مسائل کا کیا حل ہے ۔ مسٹر مودی نے طلباء کو مقام یعنی بھارت منڈپم کی اہمیت کے بارے میں بتایا اور انہیں جی۔20 سربراہی اجلاس کے بارے میں بتایا جہاں تمام بڑے عالمی رہنما اکٹھے ہوئے تھے اور دنیا کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
انہوں نے عمان کے ایک پرائیویٹ سی بی ایس ای اسکول کی دانیہ شبو، ایک سرکاری اسکول کے محمد عرش اور دہلی کے سروودیہ بال ودیالیہ کے طلبہ سے بات چیت کی کہ ثقافتی اور سماجی توقعات جیسے بیرونی عوامل سے پیدا ہونے والے دباؤ اور تناؤ کو کیسے کم کیا جائے ۔ انہوں نے طلباء پر بیرونی عوامل کے اضافی دباؤ کے اثرات کو کم کرنے میں اساتذہ کے کردار پر روشنی ڈالی اور اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ والدین نے وقتاً فوقتاً اس کا تجربہ کیا ہے ۔ انہوں نے اپنے آپ کو دباؤ سے نمٹنے کے قابل بنانے اور اس کے لیے تیاری کو زندگی کا حصہ بنانے کا مشورہ دیا۔
وزیر اعظم نے طلباء پر زور دیا کہ وہ ایک انتہائی موسمی حالت سے دوسری طرف سفر کرنے کی مثال دیتے ہوئے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کریں جہاں دماغ پہلے سے ہی شدید موسمی حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے ۔
انہوں نے تناؤ کی سطح کا اندازہ لگانے اور اسے بتدریج بڑھانے کا مشورہ بھی دیا تاکہ طالب علم کی صلاحیت اس سے متاثر نہ ہو۔ مسٹر مودی نے طلبائ، خاندانوں اور اساتذہ پر زور دیا کہ وہ ایک منظم نظریہ مسلط کرنے کے بجائے ایک عمل تیار کرکے بیرونی تناؤ کے مسئلے کو اجتماعی طور پر حل کریں۔
انہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ طلباء کے اہل خانہ کو مختلف طریقوں پر تبادلہ خیال کرنا چاہئے جو ان میں سے ہر ایک کے لئے کارآمد ہو سکتے ہیں۔