تل ابیب//
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے جمعرات کے روز غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائی کم کرنے یا جنگ کے بعد فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف قدم اٹھانے کے امریکی مطالبات کو مسترد کر دیا جو وائٹ ہاؤس کی طرف سے فوری سرزنش کی وجہ بنا۔
آگے پیچھے آنے والا تناؤ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسرائیل کی جنگ کے دائرہ کار اور اس کے زیرِ قبضہ علاقے کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں دونوں اتحادیوں کے درمیان کیا ایک وسیع خلیج پیدا ہو گئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا، "ہم واضح طور پر اسے مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔”
نیتن یاہو کے بیان سے صرف ایک دن پہلے امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ فلسطین کی آزادی کا کوئی راستہ متعین کیے بغیر اسرائیل کو کبھی بھی "حقیقی سلامتی” حاصل نہیں ہوگی۔ اس ہفتے کے شروع میں وائٹ ہاؤس نے بھی اعلان کیا تھا، اسرائیل کے لیے غزہ میں اپنے تباہ کن فوجی حملے کی شدت کو کم کرنے کا یہ "صحیح وقت” ہے۔
قومی سطح پر نشر ہونے والی ایک نیوز کانفرنس میں نیتن یاہو نے جارحانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے بار بار کہا کہ اسرائیل اس وقت تک اپنا حملہ نہیں روکے گا جب تک کہ وہ غزہ کے حماس گروپ کو تباہ کرنے اور اس کے زیر حراست باقی تمام یرغمالیوں کو وطن واپس لانے کے اپنے مقاصد حاصل نہ کر لے۔
انہوں نے اسرائیلی ناقدین کے بڑھتے ہوئے ہمنوا دعووں کو مسترد کر دیا کہ وہ اہداف حاصل نہیں ہو سکتے اور کئی مہینوں تک آگے بڑھتے رہنے کا عزم ظاہر کیا۔ نیتن یاہو نے کہا، "ہم قطعی فتح سے کم کسی چیز کے لیے تصفیہ نہیں کریں گے۔”
7 اکتوبر کو سرحد پار سے حماس کے ایک غیر معمولی حملے میں 1200افراد ہلاک ہو گئے اور 250 دیگر کو یرغمال بنا لیا گیا جس کے بعد اسرائیل نے یہ حملہ کیا۔ اس کا خیال ہے کہ تقریباً 130 یرغمالی بدستور حماس کی قید میں ہیں۔ جنگ نے پورے خطے میں تناؤ پیدا کیا ہے جس سے دیگر تنازعات کے بھڑکنے کا خطرہ ہے۔
اسرائیل کے حملے حالیہ تاریخ کی مہلک ترین اور تباہ کن فوجی مہمات میں سے ایک ہیں جن میں غزہ کے محکمۂ صحت کے حکام کے مطابق تقریباً 25,000فلسطینیوں جاں بحق ہو چکے ہیں، وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی اور علاقے کے 2.3ملین لوگوں میں سے 80 فیصد سے زیادہ اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے۔