فاروق عبداللہ کے قیادت میں نیشنل کانفرنس اپوزیشن اتحاد…انڈیا کا اہم حصہ ہے اس اتحاد کے حوالہ سے انہوںنے اب تک جو بیانات دیئے یا جن خیالات کا اظہار کرتے آرہے ہیں وہ اتحاد کو مضبوط بنانے اور سیکولر کردارکے تحفظ کو یقینی بنانے کی ان کی خواہش اور نظریہ کی ترجمانی کررہے ہیں۔
لیکن اب حالیہ چند دنوں کے دوران فاروق عبداللہ اس بات کی طرف مسلسل اشارہ کررہے ہیں کہ اگراتحاد میں شامل شراکت داروں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تعلق سے کوئی حتمی فیصلہ یا اتفاق رائے نہیں بناتو اب تک کی ساری کاوشیں زمین بوس ہوجائیگی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاید اس اتحاد سے ہٹ کر کچھ پارٹیوں کے درمیان آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تعلق سے مفاہمت ہوسکتی ہے۔
فاروق کے یہ خیالات یا اشارے یوں ہی ہوا میں نہیں بلکہ پارٹیوں کے رویوں، کہیں کسی پارٹی کی طرف سے مسلسل بالادستی مسلط کرنے تو کہیں میںنہیں تو ، تو بھی نہیں سے عبارت کے مخصوص تناظرمیں محسوس کئے جارہے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ سوال از خود ذہن میں اُبھر رہا ہے کہ کیا اپوزیشن اتحاد اپنے ہی تضادات، انفرادی نظریوں، موقفوں میں عدم لچک اور نظریہ بالادستی کے بوجھ تلے سبک رفتاری سے دبتا جارہا ہے اور جلد یا بہ دیر اس اتحاد کی روح قضائے عنصر ی کو پرواز کرجائیگی۔
جموںوکشمیر کے حوالہ سے بھی صورتحال غیر واضح ہے ۔ اگر چہ اتحاد میں نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور کانگریس شامل ہیں لیکن ان کے درمیان بھی یوٹی سطح پر انتخابی اتحاد اور سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کے تعلق سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے۔ کانگریس نے تقریباً ہر حلقے میںاپنی انتخابی مہم شروع کردی ہے کانگریس کے نامزد یوٹی انچارج مسٹر سولنکی کے بیانات اور سرگرمیوں سے اس بات کی طرف واضح اشارہ سامنے آرہاہے ۔ بے شک غلام نبی آزاد اور اسکی پارٹی اتحاد کا حصہ نہیں ہے لیکن سولنکی آزاد کے اثرورسوخ والے انتخابی حلقے کی طرف دوڈ لگاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ واضح طور سے اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ ان کی پارٹی کشمیرکے حوالہ سے کسی بھی حلقے میں کسی بھی پارٹی سے مفاہمت کے حق میں نہیں ہے اور پارٹی تینوں حلقوں سے اپنے اُمیدوار کھڑا کرے گی۔ ظاہر ہے ان تین حلقوں میں سے ایک حلقہ اننت ناگ ، راجوری ، پونچھ پر مشتمل ہے جہاں کانگریس نے اپنی دوڑیں شروع کردی ہیں۔ اگر یہ برقرار رہا تو الیکشن کے وقت اتحاد کی اہم اکائیوں نیشنل کانفرنس او رکانگریس کے درمیان معرکہ آرائی ہوگی تواُس صورت میں اتحاد کا کیا بنے گا؟ اسی طرح اسی مخصوص حلقے کے حوالہ سے پی ڈی پی بھی اپنا دعویٰ داغ رہی ہے جبکہ پی ڈی پی بھی اتحاد کی اہم اکائی ہے۔ تو کیا اس حلقے میں اتحاد میں شامل ان تینوں پارٹیوں کے درمیان معراکہ آرائی نہیں ہوگی، اس معرکہ آرائی کا فائدہ ان میں سے کسی کو نہیں ہوگا بلکہ حتمی الامکان یہی ہے کہ یہ حلقہ کسی غیر اتحادی پارٹی کے اُمیدوار کی جھولی میںگرسکتا ہے۔
جہاں تک وادی کے باقی د و حلقوں کا تعلق ہے ان حلقوں میںنیشنل کانفرنس کا مقابلہ براہ راست اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس سے ہونے جارہاہے ۔ اپنی پارٹی پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ وہ یوٹی کے تمام حلقوں سے الیکشن میںحصہ لے گی جبکہ پیپلز کانفرنس بھی اپنی قوت کے مطابق الیکشن میدان میں کودنے کی حکمت عملیوں پر غوروخوض میں مصروف ہے۔
لیکن بارہمولہ حلقے کے حوالہ سے ایک نیا فیکٹر اُس وقت اُبھر کرسامنے آیاجب سابق نائب وزیراعلیٰ مظفر حسین بیگ نے اس حلقے سے اپنی اُمیدواری کو ملحوظ خاطر رکھ کر واپس پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کی۔ اگر بیگ اس حلقے سے اپنی دعویداری پر بضد رہا تو اُس صورت میں پی ڈی پی کا اپروچ کیا ہوگا، اس بارے میں ابھی ابہام ہے لیکن اگر پی ڈی پی نے مظفر حسین بیگ کو گرین سگنل دے دیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پی ڈی پی بھی اپوزیشن اتحاد سے دستبردار ہوگی۔ ایسا ہوا تو اُس صورت میںگپکار الائنس کی بھی موت واقع ہوسکتی ہے۔
جموںمیں پارلیمنٹ کے دو حلقوں میں سے ایک پر حکمران جماعت کو چودھری لال سنگھ برابر کی ٹکر دے سکتے ہیں البتہ دوسری نشست اس کیلئے فی الوقت تک محفوظ تصور کی جارہی ہے البتہ ان دونوں حلقوں میں کانگریس نے اپنی سرگرمیوں اور اپروچ کے تعلق سے کوئی پیش رفت حاصل کرلی ہے یا نہیں اس کے بار ے میں ابھی قطعیت کے ساتھ کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے لیکن واضح ہے کہ بی جے پی کی تمام تر کوشش اور قوت ان دونوں حلقوں سے کامیابی حاصل کرنے کی طرف ہوگی۔
پارلیمنٹ الیکشن کے تعلق سے سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں ،انداز فکر ، اتحاد یا عدم اتحاد اور نتائج کے حوالہ سے تمام تر اثرات جموں وکشمیر اسمبلی انتخابات، جب بھی ہوں گے، پر مرتب ہوں گے۔ کشمیرکے اسمبلی حلقوں پر دعویداری تقسیم درتقسیم کا منظر پیش کرچکی ہے یہ تقسیم اب ختم نہیںہوگی کیونکہ کشمیرنشین کوئی ایک بھی پارٹی اور ان پارٹیوں سے وابستہ لوگ، جواب گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ پیشہ ور بن چکے ہیں، آپس میں کسی طرح کی مفاہمت یا اتحاد یا کم سے کم نظریہ ضرورت کے حوالہ سے اکٹھا ہونے کیلئے تیارنہیں بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ ان کی آپسی لڑائی شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ حریت تو اس بات کا ہے کہ ہر پارٹی عوام کی خدمت کرنے، ترقی اور خوشحالی لانے اور حقوق کی بازیابی کی راگنی کا راگ الاپتی جارہی ہے۔
اس متوقع منظرنامہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہا جاسکتاہے کہ انتخابات ہونے کے باوجود کشمیر ہو یا جموں کے عوام کوکوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوگا، نہ ان کے معاملات کا حل تلاش ہوگا اور نہ عوامی سطح پر انفرادی طور پر شہریوں کی معیشت میں بہتری کی کوئی اُمید کی جاسکتی ہے ۔