پیپلز کانفرنس سے وابستہ ایک لیڈر نے مرکزی سرکار پر الزام لگایا ہے کہ وہ کشمیر کی میوہ صنعت کو نظرانداز کررہی ہے۔ اس لیڈر نے میوہ صنعت کے بارے میں محض چند روز قبل جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہے کہ ’’ مرکز کشمیر کی میوہ صنعت کو نظرانداز کررہی ہے۔ اگر اس رجحان کو چیک نہ کیاگیا تو کشمیرکی میوہ صنعت کو خطرہ لاحق ہوگا۔ غیر معیاری جراثیم کش ادویات کی کھپت میں ملوثین کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے جبکہ میوہ صنعت سے وابستہ لوگوں کے قرضہ جات کو معاف کرنے یا رعایت دینے کیلئے خصوصی اقتصادی پیکیج کو منظور کیاجائے‘‘۔
کشمیر کی میوہ صنعت ہر دور میں بلکہ ہر آتے سال کے دوران کسی نہ کسی معاملہ یا مسئلہ کے حوالہ سے خبراور نظر میں رہتی چلی آرہی ہے۔ کبھی غیر معیاری جراثیم کش ادویات کا استعمال، کبھی غیر موسمی حالات، کبھی ژالہ باری سے ہورہے نقصانات ، کبھی قومی شاہراہ کے حوالہ سے میوہ سے لدے ٹرکوں کی درماندگی تو کبھی کچھ، یہ وہ کچھ مخصوص معاملات ہیں جن کا میوہ صنعت کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ البتہ حیرت تو اس بات کا ہے کہ خود میوہ صنعت سے وابستہ لوگ ان مسائل کا حل تلاش نہیں کررہے ہیں جبکہ ان کے حل کیلئے وہ عموماً حکومت کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔
میوہ صنعت کا شمار کشمیرکی سیاحتی صنعت کے شانہ بشانہ کیا جارہاہے۔ کشمیر کی اقتصادیات میں اس کا کلیدی کردار ہے۔ اس ضمن میں میوہ صنعت کو درپیش مسائل اور اس کی پیداوار میں ہورہا اضافہ کی سمت میں کردار اور فرائض کی انجام آوری میں حکومت جو رول اداکررہی ہے اسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے البتہ یہ کہنا کہ حکومت کشمیر کی میوہ صنعت کو نظرانداز کررہی ہے اور اگر اس رجحان کو روکا نہ گیا تو کشمیرکی میوہ صنعت کے لئے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں منفی سیاست ہی قرادیاجاسکتاہے۔
میوہ کی پیداواری صلاحیت کے حوالہ سے گذشتہ چند برسوں کے دوران اعداد وشمارات پر محض سرسری نگاہ ڈالی جائے تو پیداوار میں اضافہ، صنعت کی نشوونما اور ترقی کی سمت میں سہولیات او رمراعات وقف کرنے کی سمت میں حکومتوں نے گذرے برسوں کے دوران جو اقدامات کئے اور صنعت کو جدید ترین خطوط پر ترقی سے ہم کنار کرنے کیلئے جو اقدامات کئے یہ انہی فیصلوں اور اقدامات کا ثمرہ ہے کہ آج پیداوار چند سال قبل کے چند ہزار میٹرک ٹن سے بڑھ کر لاکھوں میٹر ک ٹن تک پہنچ گئی۔ ان اقدامات کے نتیجہ میںمیوہ باغ مالکان کی سالانہ آمدن ہزاروں کے خول سے باہر آکر اب لاکھوں کروڑوں تک پہنچ چکی ہے لیکن پیداوار اور آمدن میں اضافہ کے باوجودخود میوہ باغ مالکان میوہ صنعت کی ترقی میں کس حد تک اپنا حصہ اداکررہے ہیں ۔کیا میوہ باغ مالکان اب تک اپنے طور سے خود اختیاری ٹرانسپورٹ نظام قائم کرسکے ہیں، کیا کولڈ سٹوریج سہولیات کی تعمیر کی سمت میں وہ اب تک اپنے طور سے کوئی کردار اداکرسکے ہیں، کیا میوہ کی گریڈنگ کیلئے میوہ باغ مالکان نے اپنے طور سے کسی مشنری پلانٹ کو قائم کیا ہے؟ ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔
پیپلز کانفرنس سے وابستہ سابق کانگریسی لیڈر کے یبان کے اس حصے سے اتفاق کرنے کی گنجائش ہے کہ کشمیرکی میوہ صنعت کو خطرہ لاحق ہے البتہ یہ خطرہ لاحق اگر ہے تو کس سے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے زیادہ گہرائی میں جھانکنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میوہ صنعت کو جو خطرات لاحق ہیں ان میں ایک بلکہ بُنیادی طور سے ہم خود ہیں۔ کروڑوں روپے مالیت کا میوہ ملک کی مختلف منڈیوں تک ہرسال پہنچایا جارہاہے۔ لیکن جو میوہ ان منڈیوں تک پہنچایا جارہا ہے اس کی کوئی گریڈ بندی نہیں ہوتی۔ میوہ پیٹی کی اوپری ایک تہہ بڑی خوبصورت ، جاذب نظر اور مسحور کن ہوتی ہے جو خریدار کی توجہ آنا ًفاناً اپنی طرف مبذول کرکے خریداری کی تحریک دیتی ہے لیکن اس کے نیچے اگرایک یا دو تہہ ہوتے ہیں تو وہ انتہائی غیر معیاری، گھٹیا، ناقابل استعمال بلکہ ان کا مجموعی تعلق CULTپھل سے ہوتا ہے۔یہ گاہک کے ساتھ ایک سنگین دھوکہ ہے ، بے ایمانی اور بددیانتی کی انتہا ہے ۔ کیا کوئی باغ مالک اس تلخ حقیقت سے انکار کرسکتا ہے ، ہرگز نہیں۔
اس کے برعکس غیر ممالک باالخصوص افغانستان، ایران وغیرہ سے جو میوہ ؍پھل درآمد کیا جارہاہے اس کا معیار بہت اعلیٰ ہوتا ہے ،گریڈنگ کے تحت پیکنگ کو یقینی بنایاگیا ہوتا ہے یہاں تک کہ ہماچل سے جو پھل ؍میوہ ملک کی منڈیوں تک پہنچایا جارہاہے اس میںبظاہر کوئی نقص نہیں پایا جاتا ہے ۔ کشمیر کا باغ مالک اس طرز عمل سے خود اپنے آپ کا دُشمن بنا ہوا ہے، اپنے طرزعمل او ربددیانتی پر مبنی پیکنگ پرکوئی شرمندگی نہیں ، کوئی ندامت نہیں لیکن اپنی ہمسائیگی میںاپنے سیاسی آقائوںکو میدان میںاُتار کر مرکز پر کشمیر کی میوہ صنعت کو نظرانداز کرنے کی بے ہودگی پر اتارنا اب ایک روایت سی بن چکی ہے۔
البتہ یہ صحیح ہے کہ غیر معیاری جراثیم کش کھاد وغیرہ کی کھپت پر زیادہ نگرانی نہیں ہے جس کی ضرورت ہے لیکن جو لوگ اور کاروباری اس کاروبار سے وابستہ ہیں وہ غیر ریاستی تو نہیں، وہ بھی تو مقامی ہی ہیں جن کی آنکھوںکا پانی خشک ہوچکا ہے جن کا ضمیر مردہ ہوچکاہے ، جو بے غیرت ہیں اور جعلسازی سے عبارت کاروبار کرکے اپنی پیٹ کے دوزخ کو مزید آگ کے شعلوں کی نذر کرتے جارہے ہیں ۔ ابھی چند ہی رو زقبل سوپور اور کولگام میںغیر معیاری جراثیم کش سٹاک بھاری مقدار میں ضبط کرلیاگیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ میوہ صنعت کو کسی دوسرے سے کہیں زیادہ اپنوں سے خطرہ لاحق ہے۔
کشمیر کی میوہ صنعت آج کی پیداوار نہیں بلکہ یہ صدیوں سے موجود ہے، وقت گذرتے مرحلہ وار اس کی نشو ونما ہوتی رہی اور یوں ترقیات کے زینے طے کرتے کرتے آج اس مقام پر پہنچ تو گئی ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دہائیاں گذرنے کے باوجود یہ ابھی تک منظم نہیں کی جاسکی۔ اگر میوہ باغ مالکان نے اس صنعت کو ایک چھت تلے منظم کیا ہوتا تو آج یہ مضبوط ومستحکم ترین بُنیادوں پر کھڑی ہوتی، گریڈنگ کا کوئی مسئلہ نہ ہوتا، غیرمعیاری ادویات کی کھپت کا نام ونشان تک نہ ملتا اور نہ صنعت سے وابستہ کوئی پیکنگ مرحلہ کے دوران بددیانتی سے کام لینے کی جرأت کرتا۔ کولڈ سٹوریج کی سہولیات ضلع تو کیا بلاک سطح پر دستیاب ہوئی ہوتی اور میوہ کی ڈھلائی میںحائل دشواریوں پر قابو بھی پالیاگیا ہوتا۔ لیکن صنعت کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے اور موسمیات میں معمولی تبدیلی کے آثارنظر آتے ہی حکومت سے معاوضہ کی طلبی کی راگنیوں کا الاپ شروع ہوجاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔