مغربی بنگال جہاں پارلیمنٹ کی چالیس نشستیں ہیں اور فی الوقت تک اپوزیشن اتحاد ان میں کامیابیوں کی آس لگائے بیٹھی ہے کو اس وقت ایک زبردست جھٹکا لگا جب بنگال کی وزیراعلیٰ اور ترنمول کانگریس کی سرپرست ممتا بینرجی نے کانگریس کے رویہ کو لے کر اس کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ اسی پر بس نہیں، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی چھاپہ پار ٹیم جو حکمران جماعت ترنمول کانگریس سے وابستہ ایک رکن کے گھر کارروائی کیلئے جارہی تھی پر حملہ ہوا کے فوراً بعد کانگریس سے وابستہ مقامی لیڈر اور پارلیمنٹ میں کانگریس پارٹی کی قیادت کررہے ادھیر رنجن نے دعویٰ کیا کہ چونکہ ریاست میں امن وقانون کی حالت بگڑتی جارہی ہے لہٰذا فور ی طور سے گورنر راج نافذ کرکے ممتا کے اقتدار کو ختم کردیا جائے۔ جوابی وار کرتے ہوئے ممتا کی پارٹی کے ترجمان نے کانگریسی لیڈر کو ’بی جے پی‘ کا ایجنٹ قراردیا۔
یوں بنگال میں ایک نئی جنگ شروع ہوگئی ہے جو اپوزیشن اتحاد …انڈیا کے قیام، اس کے مقاصد اور اہداف کے حوالہ سے سم قاتل ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کی ایک اور سیاسی موت یا ناکامی پر منتج ہوسکتا ہے۔ جبکہ بنگال کی اس لڑائی کا اثر اور دائرہ کا ر دوسری ریاستوں تک بھی پھیل سکتا ہے جہاں جہاں اپوزیشن اتحاد میں شامل اکائیوں کے درمیان الیکٹورل مفاہمت کی گنجائش پیدا ہوتی جارہی تھی ۔
اپوزیشن اتحاد کی اب تک کئی ایک نشستیں منعقد ہوچکی ہیں لیکن نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ کا مسئلہ ابھی تک یہ حل نہیں کرپائے ہیں۔ حلقوں کی ایڈجسٹمنٹ اتحاد کیلئے ایک بڑا مسئلہ بلکہ سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ اتحادیوں کے درمیان اس تعلق سے بیک وقت متعدد اختلافات ہیں، دعویٰ ہیں اور جوابی دعویداری بھی لیکن سب سے بڑھ کر غور طلب یہ ہے کہ علاقائی پارٹیاںجو اپوزیشن اتحاد میں شامل ہیں اپنے اپنے دعوئوں سے دستبردار ہونے اور دوسری پارٹیوں کیلئے نشستیں چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ اس تعلق سے جموںوکشمیر میں نیشنل کانفرنس کا سرپرست اعلیٰ فاروق عبداللہ اگر چہ ایڈجسٹمنٹ کے نظریے کا حامی ہے لیکن ان کا نائب عمر عبداللہ اس کیلئے تیار نہیں ہے، کیونکہ اس کی دلیل اور منطق یہ ہے کہ کشمیر کی تین مخصوص نشستوں پر اس کے اُمیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں لہٰذا وہ اپنی دعویداری سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں۔
جموں وکشمیر کی پانچ پارلیمانی نشستوں میں سے فی الوقت ۲ بی جے پی اور ۳؍ نیشنل کانفرنس کے پاس ہیں جبکہ لداخ کی واحد نشست بھی بی جے پی کے پاس ہے۔ لیکن اب کانگریس تمام چھ حلقوں سے اپنی متوقع کامیابی کا دعویٰ پیش کرکے ان کی دعویداری کررہاہے جبکہ پی ڈی پی چاہتی ہے کہ اننت ناگ ، پونچھ کی نشست اس کیلئے اپوزیشن اتحا دکے حوالہ سے مخصوص کردی جائے۔ ان دعوئوں سے قطع نظر حکمران جماعت بی جے پی کی تمام تر توجہ اور نگاہیں ان سبھی چھ نشستوں پر ٹک چکی ہیں اور وہ بھی دعویٰ کررہی ہیں کہ سبھی چھ نشستوں پر اسے کامیابی نصیب ہوگی۔
لیکن وادی کے کم سے کم دو حلقوں… بارہمولہ اور سرینگر سے ان سبھی دعویداروں کیلئے ایک نیا چیلنج اُبھر رہا ہے ۔ سید الطاف بخاری کی اپنی پارٹی اور سجاد غنی لون کی پیپلز پارٹی ان دو حلقوں میں آپسی اتحادپر مشاورت کررہی ہیں جبکہ کچھ برسوں سے قید انجینئر رشید کے ساتھی بھی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ بھی بارہمولہ،کپوارہ حلقہ سے بحیثیت اُمیدوار الیکشن کا حصہ بن جائینگے۔ ان دونوں حلقوں میںووٹ تقیسم ہوں گے اور اس منظرنامہ میں میدان کون مار پائیگا اس کا کچھ کچھ اندازہ ہورہاہے۔
ادھر اپوزیشن اتحاد کے ایک بڑے حامی این سی پی کے شردپوار کادعویٰ ہے کہ حکمران جماعت کا دائرہ اثر سکڑتا جارہاہے جبکہ اپوزیشن اتحاد کے پاس پہلے ہی ۹؍ ریاستیں ہیں۔ البتہ وہ اپنی ریاست مہاراشٹر کے حوالہ سے سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کی سمت میں پیش رفت سے مطمئن ہیں۔ لیکن سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کے تعلق سے کانگریس کا رویہ اور اپروچ بالادستی سے عبارت محسوس کیاجارہاہے جو نئے مسائل کو ہوا دینے کا موجب بنتا جارہا ہے۔ دراصل کانگریس چاہتی ہے کہ اس کی خواہش اور مرضی کے تابع سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے جو اتحاد میں شامل دوسروں کیلئے قابل قبول نہیں۔
بہرحال بنگال میں جہاں کانگریس اور ترنمول کانگریس اب جبکہ باہم گریباں ہورہی ہیں وہیں بہار کے حوالہ سے منظرنامہ بتدریج تبدیل ہوتا جارہاہے۔ وزیراعلیٰ نتیش کمار جو کہتے ہیں لیکن کرتے اس کے برعکس، لالو پرساد یادو کی پارٹی کے ساتھ اس کے یارانہ میں گرمجوشی آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑتی جارہی ہے۔ جبکہ کچھ حلقے یہ بھی اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ واپس بی جے پی اتحاد میں شمولیت کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے مشاورت کررہے ہیں۔ نتیش کمار کے رویہ اور اپروچ میںیہ تبدیلی اروند کیجریوال اور ممتا بینرجی کی جا نب سے کانگریس صدرملک ارجن کو وزیراعظم کے عہدے کیلئے اپوزیشن اُمیدوار کے طور نامزد کرنے کے ردعمل سے منسوب تصورکیاجارہاہے۔
اُترپردیش ۸۰ ممبران کو پارلیمنٹ کیلئے منتخب کرتاآرہاہے۔ اس ریاست میں سماج وادی پارٹی اورکانگریس کے درمیان چپکلش ہے کیونکہ کانگریس نے ریاستی اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں مدھیہ پردیش میںسماج وادی کیلئے سیت ایڈجسٹمنٹ کی کوئی گنجائش نہیں رکھی جس کے جواب میں اکلیش یادو بھی اپنی ریاست میں کانگریس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرنے کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس حوالہ سے کسی بھی اتحاد کو مسترد کررہے ہیں۔بہوجن سماج وادی کی خاتون سرپرست مایاوتی اپنے ہاتھی کو بچانے کی فکر میں نہ اِدھر کی نظرآرہی ہے اور نہ اُدھر کی۔
اس سارے منظرنامہ جو تمام تر ابہامات ، سوالات، خدشات، دعوئوں اور جوابی دعوئوں سے بھر پور ہے میں یہ بات واضح طور سے دکھائی دے رہی ہے کہ حکمران جماعت حصول اقتدار کی سمت میں اپنی تیسری اننگز کے لئے راستہ ہموار دیکھ رہی ہے اگر چہ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب کی بار بھاری اکثریت نہیں ہوگی۔ لیکن ووٹ کاسٹ کرتے وقت ووٹر کی سوچ کیا ہوگی قبل از وقت کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے ۔