اپوزیشن اتحاد…انڈیا کے حوالہ سے نیشنل کانفرنس کے سربراہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے چند روز قبل اس بات کی طرف واضح اشارہ کیا کہ جموں وکشمیرمیں اتحاد میں شامل پارٹیوں کے ساتھ پارلیمانی الیکشن کے تعلق سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائیگی اور اس حوالہ سے حتمی فیصلے مناسب وقت پر کیاجائے گا۔
لیکن سیٹوں کی شراکت داری کے تعلق سے ان کے فرزند عمرعبداللہ کا کئی بار یہ موقف واضح طور سے سامنے آتا رہا ہے کہ جموں کی نشستوں کے تعلق سے پارٹی دستبرداری تو دے سکتی ہے لیکن کشمیر کے لئے مخصوص تین حلقوں کے تعلق سے نہیں کیونکہ بقول ان کے پارٹی کو برتری بھی حاصل ہے اور عوامی سطح پر سند قبولیت بھی۔ عمر عبداللہ کے ان خیالات پر محبوبہ مفتی کی پارٹی کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آتا رہا ہے چنانچہ ان دونوں کے بیانات کے پس منظرمیںعوامی حلقوں میںفوری طور سے یہی تاثر پیدا ہوتار ہا کہ جموںوکشمیرمیںاپوزیشن کا انڈیا نامی اتحاد دم توڑ رہا ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں کہ فاروق عبداللہ کے ہاں اور عمرعبداللہ کے نا کے واضح موقفوں کے پیش نظر پارٹی کے اندر کیا صورتحال پائی جارہی ہے پارٹی کی لیڈر شپ اور عہدیدار کیا ان دونوں لیڈروں کے درمیان بٹ چکے ہیں یا فی الحال وہ خاموش ہیں اور اپنی پسند اور ناپسند کے بارے میں مہربہ لب ہیں۔
قطع نظران حوالوں کے سوال یہ ہے کہ انڈیا نامی اپوزیشن اتحاد نے انفرادی پارٹی سطح پر اور اب بحیثیت اجتماعی طور سے جموںوکشمیر کے لئے کیا کیا؟ جن معاملات سے جموںوکشمیر اور اس کے عوام جھوج رہے ہیں اُن کے بارے میںاپوزیشن کیا کرداراداکررہی ہے۔ جموںوکشمیر کے حوالہ سے دیکھا جائے تو صرف کانگریس واحد بڑی پارٹی کچھ نہ کچھ حیثیت سے وابستگی رکھتی ہے اور ظاہر ہے نیشنل کانفرنس اس پارٹی کے ساتھ اپنی تاریخی وابستگی کے تناظرمیں انڈیا نامی اپوزیشن اتحا دکا بھی حصہ بنی۔
لیکن کسی پارٹی کا اپوزیشن اتحاد میں شامل ہونا اورا س کاحصہ بننا ایک الگ موضوع ہے البتہ نیشنل کانفرنس کی قیادت سے سنجیدہ فکر اور حساس عوامی حلقے بار بار یہ سوال کررہے ہیں کہ جس تشخص، منفرد درجہ اور آئینی ضمانتوں کے حصول اور تحفظ کی باتیں پارٹی کی قیادت قدم قدم پر کرتی رہتی ہے ان تحفظات اور ضمانتوں کے ساتھ جو کھلواڑ کانگریس پارٹی کی قیادت میں مرکزی حکومتوں اور اُس مخصوص مدت کے دوران اس کی میڈ ان دہلی کٹ پتلی حکومتوں نے کیا، کیا ان تلخ ترین حقیقتوں کے باوجود کانگریس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟
نیشنل کانفرنس کی کانگریس کے ساتھ یارانہ کی اپنی کوئی مجبوری ہوسکتی ہے اس مجبوری کے پیش نظر پارٹی کا کانگریس کا دم چھلہ بنے رہنا یا یارانہ بنائے رکھنے پر عوام معترض نہیں لیکن اعتراض اس بات کو لے کر ہے کہ جس پارٹی کی قیادت اور حکومتوں نے جموں وکشمیر کے عوام کے احساسات ، جذبات اور خواہشات کاگلہ گھونٹ کر مجرمانہ کھلواڑ کیا، جس کھلواڑ نے ہی کشمیر میں عدم سیاسی استحکا م کو راہداری فراہم کی، سیاسی بے چینی اور تذبذب کی ایک ایسی ہوا چلی کہ سرحد پار نے اس بے چینی اور ہوا کو اپنے لئے آکسیجن تصور کرلیا اور اپنے لئے کشمیر میںمداخلت کی لائسنس تصور کی، جس پالیسی اور عہد شکنیوں اور جمہوریت کا بار بار جنازہ اُٹھاکر کشمیر ی عوام کے جذبات سے مسلسل کھلواڑکا راستہ اختیار کیاجاتار ہا اس سب کے باوجود نیشنل کانفرنس کی قیادت کیوں کانگریس کو راہداری فراہم کرنے کا کردار اداکرکے اسے عوام پر مسلط کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے ۔
یہ سوال بھی کیاجارہاہے کہ عوام کو بحیثیت مجموعی اس اتحاد سے کیا حاصل ہوگا یا کیا حاصل ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ بادی النظرمیں کچھ بھی نہیں ۔ اگر کانگریس یہاں کے عوام کے تئیں مخلص ہوتی اور عوام سے کئے اپنے عہد وپیمان پر ثابت قدم رہی ہوتی تو غلام نبی آزاد کئی دہائیوں تک اُس پارٹی سے وابستہ ہونے کے باوجود پارٹی سے علیحدگی اختیار نہ کرتے۔ اس پارٹی کا سیکولرازم کا دعویٰ اب تک کئی بار بے نقاب ہوچکا ہے اور مسلسل ہوتا جارہاہے۔ ایک مرحلہ پر خود غلام نبی آزاد کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ان کی پارٹی کے لیڈران انہیں اپنے انتخابی جلسوں میںشرکت کیلئے اس لئے مدعو نہیں کرتے کیونکہ ’’ میرے سر پر ٹوپی ہے‘‘۔
اس پارٹی کے ایک وزیراعظم نے ’’آسمان کی حدتک‘‘ کا اعلان کیا، دوسرے نے متعدد ورکنگ گروپ قائم کئے لیکن جب ورکنگ گروپوں نے اپنی رپورٹیں سفارشات کی صورت میں پیش کیں تو انہیں دہلی کے کسی لاش گھرکی نذر کردیاگیا۔اسی طرح صحافی دلیپ پڈگائونکر کی قیادت میں سہہ رکنی کمیٹی نے بھی ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کرکے وقت کے وزیراعظم کوپیش کی لیکن اُس رپورٹ کو بھی دن کا اُجالا دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ کس کس عہد شکنی ، بے عملی اور غلط کاریوں کا حوالہ دیا جائے اور ان کے عوام پر بحیثیت مجموعی مرتب ہوتے جارہے منفی اثرات کا احاطہ کیاجاتارہے۔
کیا نیشنل کانفرنس کی قیادت کو ان سارے معاملات ، امورات اور عہد شنکیوں کی علمیت نہیں، حالانکہ وہ کھلی آنکھوںسے نہ صرف سب کچھ دیکھتے اور مشاہدہ کرتے رہے بلکہ تلخ سچ تو یہ بھی ہے کہ این سی خود ان عہد شکنیوں کے ارتکاب میںکانگریس کی شراکت دار تھی۔ ان سب باتوں، حوالہ جات اور پیش آمدہ حالات واقعات کے باوجود اگر کل کو کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد بی جے پی کو شکست دے کر اقتدار میں آتی بھی ہے تو جموں وکشمیر میں کسی معمولی سی بدلائو کی بھی توقع نہیں۔ کیونکہ اس پارٹی کا ماضی جموں وکشمیر کے تعلق سے داغدار ہے۔
اس کے باوجود نیشنل کانفرنس کو ابھی بھی عوام کے کچھ حلقوں میں پذیرائی اور قبولیت حاصل ہے اس کی وجہ اس کی آج کی قیادت نہیں بلکہ پارٹی کا وہ ماضی ہے جو کشمیر کی تاریخ کا ان مٹ حصہ ہے۔ پارٹی کی موجودہ قیادت اگر چاہتی ہے کہ اسے عوامی منڈیٹ حاصل ہوتار ہے، عوام کا اس پر اعتماد بنا رہے تو پھر اس کیلئے لازمی ہے کہ وہ کانگریس کا دم چھلہ بنے رہنے سے اپنا دامن چھڑالے، کانگریس کے ساتھ اپنی شراکت داری کے دوران جومعاملات طے کئے اور جن سے عوام کو کئی شعبوں میں ناقابل تلافی نقصانات سے ہم کنار ہوناپڑا اس کیلئے معافی مانگ لے ۔
معاملات اور مسائل کا انبوہ آنکھوں کے سامنے ہے۔ لوگ ان درپیش معاملات اور مسائل کا آبرومندانہ حل تلاش کرنے کیلئے تقسیم در تقسیم ہوکر مختلف دہلیزوں پر دستک دیتے نظرآرہے ہیں، یہ دہلیز یں ان کے احساسات، خواہشات اور جذبات کا ناجائز استحصال بھی کررہی ہیں اور ناجائز فائدہ بھی اُٹھانے کے راستے تلاش کرتے آرہے ہیں۔ ان معاملات کاآبرومندانہ حل دہلی میں ہے حکیمانہ طرزعمل اور دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ مرکز میں جو قیادت ہے اس کے ساتھ معاملات طے کرنے کیلئے براہ راست رجوع کیا جائے، نظریاتی پسند اور ناپسند کو حاشیہ پر رکھا جائے جو ویسے بھی ماضی قریب میں پارٹی کی قیادت کئی بار رکھ چکی ہے۔