اگر گذرے ۳۰…۳۵؍ سال کے دوران پیش آمدہ ناخوشگوار، دلخراش اور خون سے لت پت حالات واقعات کا محض سرسری طور سے ہی جائزہ لیاجائے تو کچھ تلخ حقائق اُبھر کر بلکہ اور زیادہ واضح ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔
ایک یہ کہ دعوئوں کے باوجود دہشت گردی کا قلع قمع نہیں کیاجاسکا۔ دوسرا یہ کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں پولیس، فورسز اہلکاروں، سویلین باالخصوص ٹارگٹ ہلاکتوں کا سلسلہ ختم نہیں کیا جاسکا۔ تیسرا یہ کہ اینٹی ملی ٹنسی آپریشنز کے دوران انسانی حقوق کی پامالیوں کی نہ روک تھام ممکن ہو پارہی ہے اور نہ شہریوں باالخصوص غیر مسلح افراد کی ازیت رسانیوں یا پُر اسرار ہلاکتوں کا راستہ ترک ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ چوتھا یہ کہ سرحد کے اُس پار سے دراندازی برابر جاری ہے بلکہ اب ڈرون آپریشنز کے تحت ہتھیار، کرنسی نوٹ اور نشہ آور ادویات فضائی راستے سمگل کرکے گرانے کا نیا روٹ اختیار کیا جارہاہے۔
فورسز پر دہشت گردانہ حملوں کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ جاری ہے جبکہ کونٹر آپریشنز کے تحت فورسز کی ناکہ بندیاں، تلاشیاں، چیکنگ ، پکڑ دھکڑ ، ایکو سسٹم کے خلاف کارروائیاں وغیرہ بھی جاری ہے لیکن صورتحال کم وبیش وہی ہے جو تھی سو اب بھی ہے۔ لیکن اس سب کے تناظرمیں یہ اہم بلکہ بُنیادی بات کو نظرانداز کیاجارہا ہے کہ عسکریت سے چند لوگ ہی وابستہ ہوگئے لوگوں کی اکثریت نہیںلیکن لوگوں کی اس عسکریت اس مدت کے دوران ہر ازیت، دُکھ، تکلیف، ذہنی اور نفسیاتی پریشانیاں، املاک کی تباہی، معاشی زبوں حالی، عزیز واقارب سے محرومی، کیا کچھ نہ سہتی رہی، البتہ بدقسمتی یہ ہے کہ اعلیٰ حکومتی سطح پر لوگوں کی ان قربانیوں کا کہیں احساس اور نہ اعتراف نظرآرہاہے۔
سٹیٹ ایکٹروں بشمول اخوانیوں نے جو طرزعمل ۱۹۹۰ء ، ۲۰۰۵ء کی مدت کے دوران اختیار کیا اُس طرزعمل نے اوسطاً شہری کو عدم تحفظ کے شدید عذاب میں مبتلا کردیا۔ شدت پسند کہے یا دہشت گرد یا ملی ٹنٹ یا جنگجو اپنے ایجنڈا کو آگے بڑھانے اور تقویت پہنچانے کی خاطر اختراعی الزامات اور حیلے بہانوں کی آڑ لے کر شہریوں، اپنے مخالفوں، فورسز اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بناتے رہے اور یوں مارے جارہے لوگوں کے عزیز واقارب، لواحقین ،د وست احباب، ہمسایے ، رشتہ دار وغیرہ اس خونین منظرنامہ کو دیکھ دیکھ کر خوفزدہ تو رہوتے رہے لیکن ان کی تمام تر ہمدردیاں ختم ہوکر ایک ایسی سوچ کو جنم دیتی رہی جس سوچ کا محدود ومرکز پرامن اور خوشحال زندگی بسر کرنے سے ہے۔یہ امر بھی خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ لوگوںنے اس مدت کے دوران جو کچھ محسوس کیا ، مشاہدے میں آیا اور اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا اُس کے نتیجہ میں اُن کے اندر یہ احساس واضح اور شدت کے ساتھ اُبھر ا کہ عسکریت پسند اُن کیلئے یا ریاست کیلئے نہیں بلکہ سرحد پار کے اپنے آقائوں کے ایجنڈوں کی تکمیل کیلئے کشمیر کی سرزمین پر دہشت گردانہ کارروائیاں عمل میںلارہے ہیں۔
حالیہ چند برسوں کے دوران کچھ راحتی اقدامات اور کارروائیوں کے نتیجہ میں لوگوں کے اندر تحفظ صحت، سلامتی کے تعلق سے جونئی گرماہٹ سرائیت کرتی جارہی تھی اور نئے عزم کے ساتھ جو مجروح اعتماد بحال ہوتاجارہا تھا اس کو اس وقت شدید دھچکہ لگ گیا جب پونچھ خطے میں حراست میںلئے گئے متعدد شہریوں میں سے تین معصوم شہریوں کی لاشوں کو ان کے لواحقین کے سپرد کردیاگیا جبکہ حراست میں لئے گئے باقی ماندہ شہریوں میں سے دس کی حالت پُرتشویش بنی ہوئی ہے۔
لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں حراست میں ٹارچر کیاگیا، زخموں پر مرچیں اور نمک کی پیوندکاری کی گئی، تین معصوم اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکت اور ہسپتالوں میں زیر علاج ٹارچر سے چور ۱۰؍ شہریوں کی حالت زار کو کچھ حلقے ’پُر اسرار ‘قرار دے کر جس پردہ دارانہ سوچ کا مظاہرہ کررہے ہیں وہ عوام دُشمنانہ ہی نہیں بلکہ ملک کے وسیع تر مفادات کے صریح خلاف ورزی اور نقصان دہ بھی ہے۔
متاثرین کے لواحقین کے حق میں امداد کا اعلان اپنی جگہ لیکن متعلقہ آرمی یونٹ کی کمان کرنے والے چار آفیسران کو ڈیوٹی سے ہٹانے کا اعلان اس بات کا پہلا اعتراف ہے کہ معاملہ انہی کی نگرانی میں ہوا، لیکن متعلقہ فوجی یونٹ سے ان آفیسران کی تبدیلی نہ متاثرین کیلئے کوئی راحت رسانی کا پیغام ہے، نہ ترسیل انصاف کے تقاضے پورے ہورہے ہیں اور نہ ہی تبدیل کئے گئے آفیسران اینٹی ملی ٹنسی آپریشنز کے دورا ن آئندہ اپنی اس مخصوص سوچ اور طرزعمل سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔ تبدیل کرکے حقیقت میں انہیں تحفظ فراہم کیاگیا ہے۔ ماضی میں بھی ایسے ہی ملے جلے متعدد معاملات دیکھے گئے ہیں جن کے بارے میں عمومی عوامی تاثر یہی ہوتا رہا ہے کہ اس ذہنیت کے حامل اہلکار کشمیرمیںولن کا رول اداکر رہے ہیں جن کے اس رول سے حوصلہ پاکر سرحد پار اپنے لئے بطور آکسیجن محسوس کرتے رہے۔
یہ بات قابل غور اور قابل توجہ ہے کہ جس خطے میں ان شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی اور جن کو حراست میں لے کر ٹارچر کیاگیا اس خطے کے لوگوں کی تقریباً سو فیصد آبادی محب وطن ہے، قدم قدم پر پولیس اور فورسز کے شانہ بشانہ اپنا تعاون اور اشتراک پیش کرتی رہی ہے لیکن اینٹی ملی ٹنسی آپریشنز کے دوران لوگوں کی اُس حب الوطنی اور جذبات کو کسی خاطرمیں نہیں رکھا گیا بلکہ بدلے کا نشانہ بنایاگیا۔ فورسز کے اس رویہ اور طرزعمل کا آنے والے دنوں میں عوام کی طرف سے کس نوعیت کا ردعمل سامنے آئے گا اس کا تو تصور نہیں البتہ خدشات اور وسوسے اپنی جگہ برقرار، پھر اینٹی ملی ٹنسی کارروائیوں کے دوران اس بات کو ہر اعتبار سے ملحوظ خاطر رکھنا لازمی ہے کہ ہر شہری ملک کا شہری ہے نہ کہ کسی بیرونی ملک سے آکر مقیم ہے۔
لڑائی دہشت گردوں اور فورسز کے درمیان ہے اوسط شہری جس کا ان معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں کیوں نشانہ بنتا رہے۔ شہریوں کی حفاظت اور صحت وسلامتی کی بقاء کو یقینی بنانے کی سو فیصد ذمہ داری سٹیٹ اور اس کی اکائیوں چاہئے وہ پولیس ہے ، آرمی ہے یا دوسرے سکیورٹی فورسز سے وابستہ ہیں نہ کہ دہشت گردوں کی۔ دہشت گرد کسی ضابطہ اخلاق اور ڈسپلن کے پابند نہیں لیکن پولیس اور فورسز تو ڈسپلن کے پابند ہیں اورکارروائیوں کے دوران SOPکو حاشیہ پر نہیں رکھاجاسکتا ہے ۔
جہاں تک گانٹھ مولہ بارہمولہ میں ریٹائر پولیس آفیسر کی سفاکانہ ہلاکت کے واقعہ کا تعلق ہے جو کوئی بھی اس ہلاکت اور سفاکیت کا ذمہ دار ہے، ملوث ہے کی نشاندہی کرکے اسے بارہمولہ چوک میں سرعام تختہ دار پر لٹکائے رکھنا چاہئے تاکہ دوسرے قاتلانہ ذہنیت رکھنے والے عبرت حاصل کرسکیں جنازہ او رتعزیت میں لوگوں کی بھاری شرکت اور ہلاکت پر صدمہ کا اظہار عوام کے جذبات کا آئینہ دار ہے جو آئینہ ہر ایک کو جھانکنے کی دعوت کا پیغام دے رہاہے!