منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

نواز اب مفاہمت نہیں محاسبہ چاہتے ہیں

دعویٰ کیا کہ ہندوستان سے قربت کی اُنہیں سزا ملی؟

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2023-12-13
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

پاکستان ۹؍مئی کے طوفان کے بعد اب ایک اور سنگین نوعیت کے بحران ، جو سیاسی نوعیت کا ہے، لیکن فی الوقت بادی النظرمیں بے قابو ہوتا نظرآرہا ہے کی دہلیز پر دستک دے رہاہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی وطن واپسی پر اعلان کیاتھا کہ وہ انتقام اور بدلہ لینے میں یقین نہیں رکھتے بلکہ ملک کی معیشت کو عمران دور حکومت کے دوران جو دھچکہ پہنچایا گیا ہے اس کی بحالی اور ملک کی سرنو ترقی کو یقینی بنانے کیلئے خود کو وقف کررہا ہوں۔ نواز شریف کے اس اعلان کا پاکستان کے کئی حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کرتے ہوئے کہاگیا کہ ملک کی موجودہ صورتحال اسی مفاہمت اور اپروچ کا تقاضہ کرتی ہے۔ لیکن اس خیر مقدم کے ساتھ ہی کچھ سیاسی، صحافتی اور سماجی حلقوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ایک لاڈلے’عمران‘ کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا اور نواز شریف کو پھر سے گود لے کر اسے لاڈلا پلس بنایا۔
ایک ڈیڑھ ماہ تک یہ بحث جاری رہی لیکن اچانک نواز شریف نے پلٹی ماری اور اپنا پرانا موقف دہراتے ہوئے پھر سے یہ سوال کیا کہ جب ملک ترقی کے راستوں پر گامزن تھا تو ان کی حکوت کو تین بار برطرف کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالدیا۔ واقعات کی نشاندہی کرتے ہوئے نواز شریف نے یہ سنسنی خیز دعویٰ بھی کیا کہ ۱۹۹۹ء میں کرگل پر فوجی چڑھائی کی مخالفت اور اس سے ذرا قبل بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کا ان کی دعوت پر دورہ پاکستان کی سزا انہیں دی گئی۔ نواز نے دعویٰ کیاکہ وہ ہمیشہ بھارت سمیت اپنے سبھی ہمسایوں افغانستان ، ایران وغیرہ کے ساتھ بہتر دوطرفہ اور دوستانہ تعلقات کا خواہاں رہا ہے لیکن کچھ قوتیں ایسا نہیں چاہتی۔ اس پس منظرمیں انہوںنے مطالبہ کیا کہ اُن سبھی ادوار کے فوجی جنرلوں، ججوں اور دوسرے کرداروں کا صرف محاسبہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ جواب چاہئے کہ انہوںنے ایسا کرکے پاکستان کے خلاف یہ سازشانہ رول کیوں اداکیا۔
نواز شریف کی اس پلٹی کو لے کر فوج کشمکش میںمبتلا ہوگئی ہے اور نواز شریف کو اپنے مطالبات سے دستبردار ہونے کیلئے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ لیکن خبر ہے کہ نواز بضد ہیں ۔ نواز کے اس موقف کو کچھ سیاسی اور صحافتی حلقے سراہنا کررہے ہیں کہ محاسبہ ہونا چاہئے اور بار بار منتخب جمہوری حکومتوں کو برطرف کرکے فوجی راج مسلط کرنے کے پیچھے مقاصد اور عزائم کو عوامی دربار میں بے نقاب کرنا چاہئے لیکن ایک اور سیاسی اور صحافتی حلقہ نواز کے اس موقف کو ایک اور بحران کو جنم دینے اور پاکستان کو بحیثیت مجموعی ایک اور سیاسی، معاشی اور معاشرتی دلدل میں جھونکنے سے عبارت قرار دیا جارہاہے۔
جنرل باجوہ نے اپنے کیرئیر کے آخری ایام میں پاکستانی فوج کی سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا اعلان کیاتھا جس کا آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی کئی بار اعادہ کیا جاتا رہا۔ جنرل عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھالی تو وہ بھی اسی موقف کے ساتھ جلوہ گر ہوئے۔ لیکن ایک سال کی مختصر مدت کے دوران پھر سے وہی سب کچھ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا جو پاکستان کی سیاست ، حکومتی سسٹم اور فوج کی ۷۵؍ سالہ چاہت اور روایت کا لازمی جز چلا آرہاہے۔
پاکستان کی سیاست، فیصلہ سازی میں مداخلت اور سیاسی جماعتوں کو گود لینے کی روایت کے پیچھے دراصل فوج کے کئی مقاصد بلکہ اب مجبوری بن گئی ہے۔ ایک مجبوری یہ ہے کہ فوج پاکستان کی معیشت، کاروبار، ٹھیکوں، انتظامیہ کے کلیدی عہدوں پر ریٹائر یا حاضر سروس آفیسروں کی تعیناتی، ہائوسنگ سوسائٹیوں ریٹائر منٹ پر نجی فارم ہائوسوں کی تعمیر کے لئے درکار ہزاروں کنال اراضی پر مشتمل پلاٹوں کی ملکیت، بھاری مراعات، مفت بجلی، رہائشی مکانات ، سکیورٹی ،سرکاری گاڑیوں کی الاٹمنٹ کے ساتھ ساتھ عملہ کی تعیناتی کچھ ایسے معاملات ہیں جن کا تحفظ فوجی جنرلوں کیلئے ان کے ایمان کا جز بن گیا ہے۔ اس مخصوص تناظرمیں وہ نہیں چاہتی کہ ان کے کسی سابق کمانڈر …ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق ، پرویز مشرف ، جنرل باجوہ ، فیض حمید ، جنرل جنرل پاشا ، جنرل حمید گل وغیرہ کے خلاف کسی قسم کی عدالتی کارروائی کی جائے۔
ان سارے معاملات کا بظاہر تعلق پاکستان کی داخلی سیاست، داخلی سسٹم اور داخلی منظرنامہ سے ہے ۔ لیکن پاکستان کے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کیسے رکھنے ہوں اس حوالہ سے فیصلوں کاحد اختیار فوج اپنے پاس رکھتی چلی آرہی ہے۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس کی طرف نواز شریف اشارہ کررہے ہیں کہ بھارت اور دوسرے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ انکے بہتر تعلقات کی کوشش ان کی اقتدارسے برطرفیوں کا کارن رہی ہے اوران برطرفیوں کے پیچھے فوجی جنرل ہی شریک اور کلیدی فیصلہ ساز کے طور شامل رہے ہیں۔
نواز نے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں ان فوجی جنرلوں اور عدلیہ کے اُن ججوںکی نشاندہی کی ہے اور ان کے محاسبہ کا تقاضہ کررہے ہیں جو وقت وقت پر ان کی حکومت کی اقتدار سے بر طرفی، ملک بدری اور قید وبند کے براہ راست ذمہ دار یا اعانت کار رہے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ نواز کے دور اقتدار کے دوران نہ صرف اٹل بہاری واجپئی بحیثیت وزیراعظم بلکہ موجودہ وزیراعظم نریندرمودی بھی پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں جن دوروں کے دوران کئی ایک باہمی دلچسپی کے امورات پر سمجھوتے طے پائے جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تصفیہ طلب معاملات کا آبرو مندانہ اور باعزت حل تلاش کرنے کیلئے کئی ایک میکانزم وضع کئے گئے۔ نواز کے دور اقتدار کے دوران ہندوستان اور پاکستان کے درمیان درپردہ سفارت کاری کا سلسلہ بھی کام کرتا رہا جس کے طفیل مختلف شعبوں میں دونوں ملکوں کے لئے آسیانیاں بھی پیدا ہوتی رہی اور کچھ حد تک تجارتی مراسم بھی قائم ہوتے رہے۔
البتہ اس میں دورائے نہیں کہ صرف پاکستان کے اندر ہی کچھ قوتیں اور حلقے ایسے موجود ہیں جو ہندوستان کے ساتھ بہتر اور دوستانہ تعلقات نہیں چاہتے ان قوتوں کے بارے میںعموماً یہی کہا جارہا ہے کہ یہ منفی سوچ اور طرزعمل کی حامل ہیں ۔ ہمارے اپنے ملک ہندوستان کے اندر بھی کچھ اسی سوچ اور طرزعمل کی حامل قوتیں اور حلقے موجود ہیں جو پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی کھل کر اپنی اس منفی سوچ کا اظہار کررہا ہے تو کوئی پردے کے پیچھے تاریں ہلا تارہتاہے۔
بہرحال نواز شریف کی یہ نئی پلٹی خود ان کی سیاست اور چوتھی بار پاکستان کا وزیراعظم بن جانے کی راہ میں کیا کچھ اپنے اندر سموئے ہے آنے والے دنوں میں اس کی کچھ نہ کچھ تصویر ضرور اُبھر کر سامنے آجائیگی البتہ پاکستان کی انٹلی جنس سے وابستہ ذرائع جس نئے اُبھر رہے اندرون سکیورٹی خطرات کی طرف اشارہ کررہے ہیں اگر ان میں کوئی حقیقت ہے تو آنے والے دنوں میں پاکستان ایک خونین دور میں داخل ہونے جارہا ہے جس خونین دور کے شکار کئی سرکردہ سیاستدان ہوسکتے ہیں، ا س ایک اور نئے خونین دور کی قیادت کرنے والوں میں کچھ سابق جنرلوں کی وساطت سے عمران خان کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

دفعہ گئی لیکن اس کا ذکر نہیں!

Next Post

جنوبی افریقا کے تبریز شمسی پی ایس ایل 9 کیلیے کراچی کنگز کا حصہ بن گئے

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
پاکستان سپر لیگ کے آٹھویں ایڈیشن کے دوران میتھیوویڈ اور عادل ایکشن میں نظر آئیں گے

جنوبی افریقا کے تبریز شمسی پی ایس ایل 9 کیلیے کراچی کنگز کا حصہ بن گئے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.