کانگریس کے ایک سینئر عہدیدار نے گذشتہ روز ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی آئندہ جب بھی الیکشن ہوں گے بھاری اکثریت حاصل کرے گی اور اپنے بل پر اگلی حکومت تشکیل دے گی۔ ان کا یہ بھی کہناہے کہ کانگریس واحد ایسی پارٹی ہے جس کو جموںوکشمیر میں ہر ایک کونے میںعوامی حمایت حاصل ہے اور یہ ہر جگہ موجود ہے ۔ پارٹی کے بارے میں اس عہدیدار نے اور بھی کچھ دعویٰ کئے ہیں جن کی حیثیت محض دعوئوں کی ہی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ کانگریس جموںوکشمیر میں دوسری پارٹیوں کے برعکس زیادہ مدت تک برسراقتدار رہی ہے۔ چاہئے اپنے بل بوتے پر یا دوسری پارٹیوں کے ساتھ شریک اقتدار رہی ہے۔ لیکن ان دونوں پہلوئوں کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے۔کانگریس ۱۹۵۲ء میں شیخ محمدعبداللہ کی حکومت کی غیر جمہوری اور غیر آئینی برطرفی کے بعد ایک مدت تک اکیلے برسراقتدار رہی۔ یہ سلسلہ ۱۹۷۲ء تک اندرا شیخ اکارڈ پر دستخط تک جاری رہا۔ لیکن ۵۲ء سے ۷۵ تک کی مدت کے دوران جو الیکشن ہوئے وہ سب کے سب فراڈ تھے، غیر منصفانہ تھے اور دہلی کی مکمل آشیرواد اور الیکشن کمیشن کی تمام تر مشینری اور وسائل کے ہوتے سیاسی انجینئرنگ کا براہ راست نتیجہ رہے ہیں۔ یہ تاریخ کا ایسا سچ ہے جس کو جھٹلانے کی کسی میںجرأت نہیں اور اگر کانگریس سے وابستہ آج کی تاریخ میںکوئی پیشہ ور جھٹلانے کا راستہ اختیار کرتا ہے تو پوری دلیل اور واقعات کے بھر پور تسلسل کے ساتھ سامنے آجائے۔
شیخ اندر ااکارڈ کی روشنی میں میر قاسم اقتدار سے دسبردار تو ہوئے لیکن شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں جو مخلوط سرکار تشکیل دی گئی اس میں کانگریس شریک رہی۔ یہی سے کانگریس کا وہ سفر شروع ہوجاتا ہے جو شریک اقتدار کی اصطلاح کے زمرے میں شمار کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد سے حالیہ ایام تک کانگریس نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے ساتھ شریک اقتدار ہی اور اس دوران جہاں کشمیر سے کانگریس کا تقریباًصفایا ہوا وہیں جموں خطے سے اس کی بے دخلی کا آغاز بھی ہوتارہا۔
کانگریس دعویٰ کرسکتی ہے کہ وادی کے کچھ حلقوں سے اس کے ارکان الیکشن میںکامیاب ہوتے رہے ہیں جن کا میابیوں کا حوالہ وہ پیرزادہ محمدسعید، تاج محی الدین وغیرہ کے حوالہ سے دے سکتی ہے لیکن ان کی کامیابی ان کے اپنے اثرو نفوز کی مرہون منت رہی ہے نہ کہ پارٹی کے کسی اثرونفوز کی ۔ کشمیر میںکانگریس اقتدار پر رہتے طویل عرصہ تک سیاہ وسفید کا مالک کل بنے رہنے کے باوجود عوام کی حمایت وتائید کیوںحاصل نہ ہوسکی اس کی اہم ترین اور بُنیادی وجہ ، جس کے بارے میںتاریخ دان، سیاسی مبصرین ، حساس تجزیہ کار آپس میں متفق ہیں کانگریس کی وہ وعدہ شکنیاں اور دغا بازیاں رہی ہیں جس کی اُس کی لیڈر شپ مرتکب ہوتی رہی۔
پہلے وزیراعظم آنجہانی جواہر لال نہرو کی دوستی کی آڑمیں چھرا گھونپ انداز فکر واپروچ، ریکاکاری سے عبارت عہد وپیمان اور پھر قدم قدم پر شیرین زبان کا استعمال لیکن اندر ہی اند سے کینہ یا سیاسی کمینہ پن آہستہ آہستہ بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر میںلوگوں پر آشکارا بھی ہوتا رہا اور محسوس بھی کیا جاتارہا۔ نہرو کی مسلسل یقین دہانیوں اوربعد میں ان کے جانشینوں نے بھی بحیثیت پارٹی لیڈر اور بحیثیت حکومتی عہدیدار وں کے یہی راستہ اختیار کیا اور عوام کے ان حقوق پر ڈاکے ڈالنے کے راستے تلاش کرتے رہے جن حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی جاتی رہی۔ اس حوالہ سے کیا یہ تلخ سچ نہیں کہ آئین کی دفعہ ۳۷۰ کے بارے میں خود پہلے وزیراعظم نے پارلیمنٹ کو بار بار یقین دلایا کہ یہ دفعہ وقت گذرتے اندر ہی اندر سے اس قدر کھوکھلی بن جائیگی کہ اس کا وجود محض کاغذ کے ایک پرزہ کی سی رہ جائیگی اور پھر کیا یہ سچ نہیں کہ کشمیرکے حوالہ سے اپنی حماقت پر مبنی سیاسی انداز فکر اور کورپٹ ذہنیت سے عبارت اپروچ کا سہارا لے کر کانگریس نے کشمیر میں سیاسی اور مالی کورپشن کی نہ صرف داغ بیل ڈالی بلکہ اس کی سرپرستی بھی کرتی رہی۔
کانگریس کی ان اینٹی کشمیر پالیسیوں اور اپروچ کو عملی جامہ پہنانے میںاسے کشمیرنشین کچھ مخصوص سیاسی آلہ کاروں کی بھر پور معاونت حاصل رہی جو معاونت اور پشت پناہی آج کی تاریخ میں بھی ان آلہ کاروں کی طرف سے کانگریس کو حاصل ہے۔ اگر کانگریس نے جموں وکشمیر کی اندرونی خودمختاری سلب نہ کرلی ہوتی تو نیشنل کانفرنس کو اسمبلی میںاٹانومی سے متعلق قراردادپیش کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نیشنل کانفرنس کی لیڈر شپ نے کانگریس کا دم چھلہ بن کر قد م قدم پر اختیارات سے دستبرداری دے کر اندرونی خود مختاری کو کمزور سے کمزور تر کرنے میں جو معاونتی کردار اداکیا اُس پر پردہ ڈالنے کے لئے اٹانومی کی قرارداد ریاستی قانون سازیہ میں پیش کی اور پھر ایوان میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر اس کی منظوری بھی حاصل کی۔ لیکن اس قرارداد کا جو حشر بعد میں ہوا اُس حشر کو بھی پارٹی لیڈر شپ نے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرکے نہ صرف خاموشی اختیار کی بلکہ مرکزی وزارت میںاقتدار میں اپنی شرکت کے تحفظ کیلئے اُف تک نہ کیا۔
بہرحال کشمیرنشین پارٹیوں نے جو کچھ بھی رول اور کردار اس ساری مدت کے دوران نبھایا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن کانگریس الیکشن میں بھر پور کامیابی حاصل کرکے اگلی حکومت اپنے بل بوتے پر تشکیل دینے کا جو خواب دیکھ رہی ہے وہ کئی وجوہات کی بنا پر شرمندہ تعبیر ہوتا ممکن نظرنہیں آرہا ہے۔ ممکن ہے چند ایک حلقوں سے اسے کامیابی حاصل ہو لیکن اُس کامیابی کا ۸۰؍ فیصد سہرا ان کامیاب اُمیدواروں کے اپنے سیاسی قد اور حلقے میں ان کے اثر ونفوز کی ہی مرہون منت تصور کیاجائے گا۔ ویسے بھی خواب دیکھنا کوئی گناہ نہیں لیکن خواب دیکھنے کیلئے کچھ لوازمات کی بھی ضرورت ہے۔ سیاسی معاملات اور معاشرتی امورات کے حوالہ سے ایک واضح روڈ میپ کا ہونا بھی ناگزیر ہے ۔ لیکن فی الوقت تک کانگریس کے پاس جموں وکشمیر کے سیاسی معاملات اور معاشرتی اور معیشتی امورات کے تعلق سے کوئی واضح روڈ میپ نہیں !