بات آج کی نہیںاور نہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے اب تک کی ہے بلکہ ۱۹۴۷ء سے ہی کشمیر کی سیاسی اُفق ، اس سے وابستہ سیاست کار اور مختلف نظریات کی حامل سیاسی پارٹیاں سیاست کی اندھیری گلیوں میں بھٹکتی اور اپنا سر پھوڑتی چلی آرہی ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں کہاجاسکتا ہے کہ کشمیری سیاست کی کون سی کل سیدھی رہی ہے جو آج کی تاریخ میں سیدھی پٹری پر گامزن ہونے کی تمنا کی جاسکے۔
یہ کشمیر اور کشمیری عوام کی بہت بڑی بدقسمتی ہے اور المیہ بھی کہ اس سرزمین نے ماسوائے چند ایک کے کسی مخلص، ہمدرداور عوام پرور سیاستدان کو جنم نہیں دیا البتہ جو بھی سیاست کے نام پر جلوہ گر ہوتا رہا وہ فطرتاً معذرت خواہ ہی ثابت ہوتا رہا، اقتدار پرست ، حصولی اقتداراور تحفظ اقتدار کی خاطر اپنے مافی ضمیر تک کو گروی رکھتا رہا، سوداگرانہ روپ بھی دھارن کرتا رہا اور وقت وقت پر اپنی سیاسی ضرورتوں کے پیش نظر جھوٹ پر جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ بھی کرتا رہا۔
معاملات کئی ہیں، قصے اور کہانیوں کا انبوہ بھی ہے اور سیاستدانوں کا دوغلا پن بھی چشم بینا دیکھتی رہی ہے، اگر بات موجودہ بجلی بحران کے حوالہ سے کی جائے تو کشمیرکے کئی سیاستدان نما اقتدار کی کرسی پر براجماں ہوتے رہے افراد کے دوغلا پن اور معذرت خواہانہ روش کے کئی چہرے بے نقاب ہوجائیں گے۔ یاد ہے لال کرشن ایڈوانی بحیثیت نائب وزیراعظم کشمیرکے دو رے پر آنے والے تھے، دورے سے قبل اتفاق سے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے ساتھ سرینگر دوردرشن کے اسٹیڈیوز میں کچھ درجن بھر صحافیوں کے ساتھ ایک نشست منعقد ہوئی، بجلی بحران اُن دنوں بھی اپنے عروج پر تھا، فاروق عبداللہ سے سوال کیاگیا کہ کیا وہ اس مخصوص معاملے کو دورے پر آرہے نائب وزیراعظم کے ساتھ رجوع کریں گے،کیا جو ۱۲؍ فیصد بجلی رائیلٹی کے طور پر ریاست کو مل رہی ہے اُس حوالہ سے سابق ادوار میںدستخط شدہ مفاہمت نامہ پر نظرثانی کے لئے درخواست کریں گے اور کیا دو مخصوص بجلی پروجیکٹوں کی واپسی پر بات کریں گے، کیونکہ سوال کرنے والے نے رائے ظاہر کی کہ ’’بہت کچھ ہوا ہے اب اس کچھ کا ٹھرائو آنا چاہئے‘‘۔
فاروق عبداللہ نے صحافی سے اتفاق کیا اور کہا کہ وہ ضرور ان اشوز کو آنے والے مہمان کے ساتھ اُٹھائیں گے لیکن ساتھ ہی یہ بھی مشورہ دیا کہ جب ایڈوانی جی صحافیوں سے ملیں گے تو آپ لوگ بھی بریفنگ کے دوران ان اشوز کو اُٹھائیں گے ، لیکن صحافی نے جواب میں فاروق صاحب سے گلہ کے انداز میں کہا کہ آپ مداخلت کرتے ہیں اور پھر ان حساس معاملات پر صحافی اشوز کو زبان دینے سے رہ جاتے ہیں ، فاروق صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ مداخلت نہیںکریں گے بلکہ خاموش رہینگے لیکن جب ایڈوانی جی پریس سے ملاقی ہوئے تو وہی کچھ ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیاگیا تھا۔ فاروق صاحب نے مداخلت کی اور کہا کہ کسی اور وقت ۔
یا دماضی عذاب ہے یا رب ، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا شاعر نے شعر تو کہی لیکن حافظہ چھین کوئی نہیں سکتا، ماضی اپنے کردار، عمل،ہیت ،تندی، تیز گفتاری ،شیرینی وغیرہ سب کچھ کے حوالہ کے ساتھ انسان کے شعور اور لاشعور دونوں پر سایہ فگن رہتاہے۔یہ فاروق صاحب کے ساتھ اُس مخصوص نشست کی یاد اس لئے عود کر آئی کہ گذشتہ چند گھنٹوں کے دوران ان کے فرزند اور سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ اور ماضی میں مختلف ادوارمیں وزارتی کرسیوں پر فائز رہے اور فی الوقت اپنی پارٹی کے سینئر لیڈر غلام حسن میر کے درمیان طعنہ زنی ، دعوئوں اور جوابی دعوئوں کی جونئی کتاب کھلنے لگی ہے اس کے حوالہ سے یہ بات واضح کی جاسکے کہ سیاست کاروں کے درمیان اس نوعیت کی نوک جھونک اور طعنہ زنی کوئی نئی یا حیران کن نہیں بلکہ یہ ان کا شیوہ ہے۔ عمرعبداللہ نے غلام حسن میر پر جو الزامات عائد کئے ہیں یا جن طعنوں کا سہارا لیا ہے ان میں بھی کوئی نیا پن نہیں جبکہ جواب میں غلام حسن میر نے این سی کے بارے میں جو کہا ہے وہ بھی ماضی اور تاریخ کا حصہ ہے۔
عمر کا کہنا ہے کہ غلام حسن میر دہلی کا مہرہ ہے اور اس حوالہ سے ایک سابق آرمی سربراہ جو فی الوقت مرکز میں ایک وزارتی عہدہ پر فائز ہیں کے اُس بیان کا تذکرہ کیا ہے جس میںانہوںنے غلام حسن میر کو ’’کشمیرمیں ہندوستان کا بھگوان ‘‘قرار دیاتھا۔ غلام حسن میر کشمیرنشین دوسرے کئی سیاستدانوں کی طرح پینترا بدلتے رہے ہیں وہ چونکا دینے والا نہیں۔
ان کے حوالہ سے بھی ایک نشست کا حال احوال ماضی کے تعلق سے یاد آرہاہے ۔ وہ وزارتی عہدے پر فائز تھے لیکن اندر ہی اندر ان کے اپنے ساتھیوں سے کچھ اختلافات چلے آرہے تھے۔ ایک صحافی دوست جوانہی کے علاقے ٹنگمرگ گلمرگ سے نسبت رکھتے ہیں کی وساطت سے چار پانچ صحافی ان کی رہائش گاہ واقع چرچ لین پر میر صاحب کی ’’ خشک دعوت‘‘ پر اکٹھا ہوئے، میر صاحب نے باتوں باتوں میں گلہ کیا کہ کشمیرکا میڈیا اُن انتظامی اشوز کو ایڈریس نہیں کررہاہے جن کا تعلق سویلین او رپویس ایڈمنسٹریشن میںاعلیٰ عہدوں پرغیر مقامی آفیسروں کی تقرریوں اور تعیناتیوں سے ہے۔
وہ گلہ کرتے رہے کہ چیف سیکریٹری نان مسلم، پولیس سربراہ نان مسلم، چیف جسٹس نام مسلم ، ایڈمنسٹریشن کے اعلیٰ بلکہ فیصلہ ساز اداروں کے عہدوں پر نام مسلم غرض حکومت اور ایڈمنسٹریشن جموں وکشمیرکے رہائشی آفیسروں کی تحویل میںنہیں بلکہ بیرونی ریاستوں سے آفیسروں کو لاکر یہاں تعینات کیاجارہاتھا۔ ان سے سوال کیاگیا کہ وہ خود اس اشوع کے بحیثیت سیاستدان اور وزارتی عہدے پر فائز رہتے کیوں نہیں اُٹھاتے تو اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں میں پناہ گزین ہوئے۔ تب سے اب تک کئی سال گذرے لیکن میر صاحب نے خود کبھی کسی مرحلہ پر اس مخصوص اشو پر اپنی زبان کو حرکت نہیں دی۔
یہ چند واقعات بطور اشارے کے تذکرہ میں آئے۔ کشمیرنشین سیاستدان غالباً اس خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ کشمیر کی سیاست، کشمیرکے خود اختراعی نریٹو اور کشمیر کو درپیش معاملات کے تعلق سے ’’حرف آخر‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں اور جب چاہیںجس طرح چاہیں تو وہ عوام کو اپنی تسخیر شدہ شئے کے طور استعمال اور استحصال کرتے رہینگے اسی سوچ، فکر اور طرزعمل کے حامل سیاستدانوںنے جنت کشمیر کو جہنم زار اور کشمیریوں کو عذاب وعتاب مسلسل میں مبتلا کرنے میں اہم بلکہ کلیدی کردارادا کیا ہے، کشمیر کی عصری اور ماضی کی تاریخ بھری پڑی ہے۔