ہر دس منٹ بعد ایک فلسطینی بچہ موت کی آغوش میں سلادیاجارہاہے۔ غزہ پٹی میں نہ صرف عام شہری بستیاں کھنڈرات بن چکی ہیں بلکہ چار بڑے ہسپتال قبرستان کا سامنظر پیش کررہے ہیں۔ شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں ہرگذرتے لمحہ کے ساتھ اضافہ ہورہاہے جواب ۱۲؍ہزار تک پہنچ چکی ہے جن میں نصف سے زائد تعداد بچوں، خواتین اور بزرگ شہریوں کی ہے، زخمیوں کی تعداد ۳۰؍ ہزار کو چھو رہی ہے لیکن ان کے علاج ومعالجہ کیلئے نہ ادویات ہیں اور نہ کوئی محفوظ راہداری۔
صورتحال بے حد سنگین بن چکی ہے جبکہ عالمی سطح پر اس سنگین صورتحال کے حوالہ سے جنگ روکنے کی حد تک مطالبات دم توڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم جنگی جنون میں مبتلا ہوچکے ہیں جبکہ ان کا ایک وزیر جن کا نام بن گوئر بتایا جارہاہے نے نہ صرف حماس بلکہ دُنیا بھر میں جہاں کہیں حماس یا فلسطین کے حامی ہیں کو ختم کرنے کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ یہودی شہریوں اور مقبوضہ مغربی کنارے میں یہود آباد کاروں میں ۲۵؍ ہزار جدید ساخت کے ہتھیار بھی تقسیم کردیئے ہیں۔ یہ وہی شخص ہے جس سے اور کسی نے نہیں خود امریکہ اور اسرائیل دہشت گرد قرار دے چکا ہے لیکن اسرائیلی وزیراعظم نے اسے اپنی وزارتی کونسل میںشامل کرکے ایک اہم وزارتی عہدہ تفویض کیاہے۔
صورتحال پر غور کرنے کیلئے توجہ سعودی شہر میں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے مشترکہ اجلاس کی طرف مبذول ہوئی تھی اور عالمی سطح پر یہ توقع کی جارہی تھی کہ مسلم ممالک کی ان دو تنظیموں کے مشترکہ اجلاس میں کسی روڈ میپ کو مرتب کرکے اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔لیکن یہ مشترکہ اجلاس صریح ناکامی پر ختم ہوا۔ اجلاس میں مقررین نے گرم گفتارتقریریں تو کیں جبکہ کچھ ممالک نے اسرائیل کے خلاف کچھ تادیبی اقدامات اُٹھانے کی بھی تجویز پیش کی، جن میں اسرائیل کو تیل کی سپلائی روکنے، سفارتی تعلقات اور تجارت ختم کرنے، اسرائیل کے جہازوں کو مسلم علاقوںکے فضائی حدود سے پرواز کرنے کی اجازت واپس لینے ایسے اقدامات شامل تھے۔ یہ تجاویز لبنان اور الجیریا نے پیش کیں، لیکن سعودی عرب کی قیادت میں اثررسوخ والے بلاک جو یو اے ای، اردن، مصر، بحرین، سوڈان، مراکش ، ڈبوجی اور مورتینیا پرمشتمل ہے نے ان تجاویز کو مسترد کردیا جبکہ اسرائیل کے خلاف انفرادی سطح پر کسی بھی کارروائی کی بھی مخالفت کی۔
فلسطینیوں کاالمیہ تو یہ بھی ہے کہ اس کی ہمسایہ ریاست مصر کے حکمران اپنی فرعونی نسل اور جانشین ہونے پر فخر کرتے ہوئے سرحدی کراسنگ رفاع کو زیادہ دیر تک زخمیوں اور عام شہریوں کی آمد کے حوالہ سے کھولنے یا کسی سہولیت کی فراہمی کیلئے تیار نہیں۔ کچھ ممالک سے جو امدادی سامان روانہ کیا جارہا ہے اس کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ اس کو بغیر کسی معقول وجوہات کے روکے رکھا جارہاہے اور روانگی کے تعلق سے تاخیری حربے اور ہتھکنڈے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔
اسرائیل کے حق میں بعض بیانات اور فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے پر اسرائیلی قبضہ کے خلاف بیانات تو آرہے ہیں لیکن زمینی سطح پر صورتحال انتہائی پُرتشویش اور مخدوش بنی ہوئی ہے۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور بعض مغربی ملکوں کی پشت پناہی میں گھمنڈ اور طاقت کا بے پناہ استعمال بھی اب تمام سیاسی، اخلاقی اور مسلمہ بین الاقوامی حدود سے تجاوز کرتاجارہاہے، یہاں تک کہ اب خود امریکہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ وہ غزہ میں شہری املاک اور ہسپتالوں کو قبرستان میںتبدیل ہوتا دیکھنا نہیں چاہتا اور نہ ہی غزہ کے ایک حصے پراسرائیلی قبضے کی حمایت کرسکتا ہے۔
اِدھر ہندوستان میںرائے عامہ کا ایک حساس اور ذمہ دار طبقہ وزیراعظم سے موجودہ صورتحال کے تناظرمیں بھرپور اور ٹھوس کردار اداکرنے کی مانگ کررہاہے۔ اقوام متحدہ میںیہودی بستیوں کی تعمیر کے خلا ف قرارداد کی حمایت کرکے ہندوستان نے ایک بے حدحساس اور ذمہ دار کردار اداکرکے عالمی سطح پر ایک واضح پیغام دیدیا ہے۔ اگر چہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات خوشگوار اور باہمی تعاون پر مبنی ہے لیکن یہودی بستیوں کے قیام پر ہندوستان نے جو موقف اختیار کیا ہے اس کی ملک کے اندر بھی سراہنا کی جارہی ہے جبکہ اس موقف کو حقیقت پسندانہ اور کسی بھی توسیع پسندانہ منصوبے کے خلاف موثر آواز کے طور پر لیاجارہا ہے۔
بہرحال عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے رویہ اور اپروچ نے خود مسلم ورلڈ کو مایوس کردیا ہے وہیں یہ احساس بھی اُبھرنے لگ گیا ہے کہ اگر سعودی عرب اور اس کے زیراثر کچھ ریاستوں کی چودھراہٹ اور اجارہ داری مجموعی مفادات کے خلاف جاری رہی تو اس تنظیم کا وہی حشر ہوسکتا ہے جو لیگ آف نیشنز کا ہوا تھا۔
جنگ کو شروع ہوئے ۳۸؍ روز ہوچکے ہیں لیکن اس کے خاتمے کے کوئی آثار نظرنہیں آرہے ہیں ۔ بلکہ خطے میں یہ جنگ اب پھیلتا جارہا ہے۔ اسرائیل لبنان، شام کو پہلے ہی نشانہ بناچکا ہے ۔ کچھ عالمی سطح کے دفاعی تجزیہ کار یہ محسوس کررہے ہیں کہ جنگ اگر طول پکڑ گئی تو یہ جہاں خود اسرائیل کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے وہیں اگر کچھ اور ممالک جنگ میں محض ردعمل کے ہی حوالہ سے کود گئے تو پھرا س تباہی اور بربادی کو روکنا کسی کے بس کا روگ نہیں ہوسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ خود اسرائیل کے اندر یہودیوں کا ایک طبقہ جنگ کے خلاف سڑکوں پر حالیہ ایام میں آیا اور واضح کیا کہ ’’ہمارے نام کے لئے جنگ نہیں‘‘ کے نعرے بھی بلند کئے۔ دُنیا کی مختلف راجدھانیوں میں بھی جنگ کے خلاف آوازیں بلند ہورہی ہیں اور اسرائیل سے کہاجارہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی روک دیں۔ بے شک کچھ ممالک کی حکومتیں اسرائیل کی حامی ہیں اور اس کے جنگی جنون کی حمایت اور تائید بھی کررہی ہیں ، لیکن عوامی سطح پر اسرائیل حمایت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔
امریکہ چونکہ اسرائیل کا غیر فطری باپ ہے وہ چاہئے مداخلت کرکے نسل کشی سے عبارت اس جنگ کو روکنے کیلئے اسرائیل پر دبائو ڈال سکتا ہے لیکن بائیڈن حکومت نے موجودہ صورتحال کے تناظرمیں جو رول اداکیا اور جو بیان بازی کی اور پھر فوجی امداد کی فراہمی کا اعلان کیا اس نے اسرائیل کے حوصلوں اور جنون کو ایک نئی قوت عطا کی ۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میںپیش کچھ قرارداد وں کو ویٹو کرکے اسرائیل کے اور بھی حوصلے بلند کئے۔