سرینگر میونسپل کمشنر نے گذشتہ روز کتوں کی افزائش نسل کی روک تھام سے متعلق ایک بیان دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ کتوں کی پکڑ دھکڑ اور ان کی ویکسینیشن کا کام ہورہا ہے جو الگے چند ماہ کے دوران اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔ انہوںنے اپنے بیان میں یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ کتوں کی پکڑ دھکڑ کے بعد انہیں واپس انہی کے علاقوں میں چھوڑا جارہا ہے جبکہ یہ الزام درست نہیں کہ پکڑے جارہے کتوں کو دوسرے علاقوں یا بستیوں میں چھوڑا جارہا ہے۔
میونسپل کمشنر کا یبان کوئی نیا نہیں۔ کتوں کی افزائش نسل روکنے کا منصوبہ کشمیرمیں سالہاسال سے عمل آوری کے مراحل سے گذررہاہے اور فی الوقت بھی جاری ہے۔ لیکن زمینی سطح پر تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ منصوبہ ’الف سے ے ـ‘ تک ناکام ہے، نہ کتے انسانی بستیوں سے ناپید یا کم ہورہے ہیں، نہ لوگوں اور تیز رفتار گاڑیوں پر حملہ آور ہونے اور بھونکنے سے اجتناب کررہے ہیں اور نہ ہی ویکسینیشن کے حوالہ سے ان کے اندر کی ذرہ بھر بھی درندگی ختم ہوسکی ہے۔
کتوں کی ہڑبونک انسانوں پر حملوں اور انہیں کاٹنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ اور بڑھتی آبادی صرف کشمیر تک محدود نہیں بلکہ یہ پورے ملک کا مسئلہ بنا ہوا ہے جو آئے روز کی بڑھتی وارداتوں کے نتیجہ میں آبادی کیلئے پریشان کن رُخ اختیار کرتا جارہاہے۔ کتوں کے کاٹنے کے علاج کیلئے درکار مطلوبہ انجکشن ہرہسپتال یا ہیلتھ مراکز پر دستیاب نہیں جس کے نتیجہ میں بہت سارے متاثرین کی موت بھی واقعہ ہوتی جارہی ہے۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق ملک بھر میں کتوں کی آبادی تین کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ روزانہ اوسط حملوں کے شکار افراد کی تعداد اڑھائی سو کے آ س پاس ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر افزائش نسل روکنے کیلئے انہیں ویکسین دیئے جارہے ہیں توآبادی میںہوشربا اضافہ کیسے ہورہاہے؟ کیا ویکسین غیر موثر اور دونمبری ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح مختلف اقسام کی ادویات کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ کشمیرکے بازاروں میں دستیاب تقریباً۸۰۔۹۰؍فیصد ادویات دونمبری اور غیر موثر ہیں۔ اگر واقعی یہی ایک کارن ہے توا س ناکامی کے ذمہ داروں کی نشاندہی ہونی چاہئے لیکن اگر کارن کوئی اور ہے جس میں سے ایک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کتے تو پکڑے جارہے ہیں لیکن ویکسین دیئے بغیر ہی چھوڑے جارہے ہیں تو پھر یہ ایک مجرمانہ فعل ہے اور انسانی آبادی اور بستیوں کے لئے ناقابل معافی سازش ! جو کچھ بھی ہے کشمیرکے حوالہ سے تمام بلدیاتی ؍میونسپل اداروں کے منتظمین کیلئے یہ ضروری بن جاتا ہے کہ وہ اس مخصوص منظرنامہ کو سنجیدگی سے لیں اور دیکھیں کہ کوتاہیاں اور خامیاں کہاں ہیں۔
شہر سرینگر کی بات کریں یا اس کی مضافات اور دیہی علاقوں کی ہر جگہ ایک ہی مخصوص نظارہ ہے ۔ آوارہ کتوں کے جھنڈ در جھنڈ ایک دوسرے کی چند گز کی دوری پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے نظرآرہے ہیں، کوئی جھنڈ اپنے مفتوحہ علاقہ میںکسی دوسرے جھنڈ کو گھسنے نہیں دیتا بالکل اسی طرح گھروں سے قدم باہر رکھتے ہی یہ جھنڈ حملہ آور ہورہے ہیں۔
بے شک کتے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں شامل ہیںلیکن زمرہ بندی کے تعلق سے ان کا شمار درندوں میں کیاجارہاہے۔ کئی علماء کے فتویٰ ریکارڈ پر موجود ہیں کہ درندہ چاہے کوئی بھی مخلوق ہو انسانی زندگیوں، صحت، سلامتی اور بقاء کیلئے خطرہ بن جائے تواس کو ختم کرنا جائز ہے ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیرمیں کئی ایسے لوگ اور ادارے ایسے ہیں جوانسانوں کے حقوق سے کہیں زیادہ کتوں ایسے درندوں کے حقوق کے تحفظ کے علمبردار ہیں۔ انسانوں کے حقوق بھاڑ میں جائیں اس کیلئے انہیں کوئی فکر مندی اور تشویش نہیں ہے۔ کتوں کی ہلاکت ان سے دیکھی نہیں جاتی، بلکہ کچھ ایسا تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے کتے کی موت نہیں ان کے کسی فرد کی موت واقع ہوتی ہے۔
دُنیا کے بہت سارے ممالک ایسے بھی ہیں جہاں سڑکوں ، گلی کوچوں میں کوئی آوارہ کتا نظرنہیں آرہا ہے کیونکہ حفظان صحت اور انسانی سلامتی اور بقاء کیلئے ان ممالک نے تحفظاتی قوانین اور ضوابط مرتب کرکے ایک جامع مگر قابل عمل روڑمیپ وضع کرکے نافذالعمل بنایا ہے۔ ابھی چند ہی روز قبل ایک ترقی یافتہ ملک میں گھروڑوں کی ایک مخصوص قسم کو ہلاک کردیاگیا جبکہ گذشتہ سال بھی اسی ملک نے اس مخصوص نسل کے ہزاروں گھوڑ وں کو فضا سے ہی بمباری کرکے ہلاک کردیاتھا۔ ابھی اسی ہفتے کے دوران ایک اور ملک نے بھینس اور گائے کی ہزاروں کی تعداد کو مختلف معاشرتی وجوہات کی بنا پر ہلاک کردیا ہے۔ حالانکہ نہ گائے اور نہ گھوڑا درندہ صفت جانوروں کی زمرے میں شمار کیاجاتا ہے۔لیکن یہاں کشمیرمیں ایک کتے کو بھی ہاتھ لگانے کی خبر سامنے آجاتی ہے تو گاندھی خاندان کی ایک خاتون رکن آسمان سر پر اُٹھاتی ہے۔
یہی وہ خاتون ہے جس نے کئی سال قبل کشمیرکی توسہ شال، پشمینہ اور رفل پیداوار کے خلاف ایک ایسی مہم چلائی کہ جس کے نتیجہ میں کشمیرکے لاکھوں گھرانے روزگار سے محروم ہوئے جبکہ جن کے پاس یہ پروڈکٹ باالخصوص توسہ شال اور دوشالے تھے انہیں بحق سرکار ضبط کراکے لوگوں کی ایک بڑی تعداد،جوا س مخصوص گھریلو صنعت سے وابستہ رہ کر اپنا جائز روزگار حاصل کررہے تھے کو ان کے اثاثوں سے محروم کردیا۔
بلاشبہ جانوروں، درندوں اور پرندوں کے بھی اپنے اپنے حقوق ہیں جبکہ ملکی سطح پر ان حقوق کے حوالہ سے مختلف قوانین موجود ہیں۔ لیکن جب کوئی درندہ اپنی وراثتی اور فطری درندگی پر اُترآتا ہے اور انسانوں کی آبادی پرحملہ آور ہوتا ہے، کا ٹتا ہے یا ہلاک کرتاہے تو ایسے درندہ کو ختم کرناایک فطری ردعمل بنتا ہے۔
کتوں کو ویکسین لگاکر ان کے اندر کی درندگی کو نہ قابو کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی ختم کیاجاسکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ان کی افزائش نسل کو کسی حد تک روکا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی ریکارڈپر ہے اور ماہرین بھی اس پر متفق ہیں کہ ایک کتا ویکسین سے بچ جائے تو اڑھائی سال کی مدت کے دوران وہ ۷۲؍ جوڑوں کو جنم دیتا ہے جبکہ ہر کتا صرف ۶؍ماہ سے ۹؍ماہ کی عمر کی حد پار کرجانے پر پیدواری مرحلہ میںداخل ہوجاتاہے ۔
سرینگر میونسپل ہویا وادی کے دوسرے بلدیاتی ادارے اس سنگین مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور ان لوگوں کی حالت پر زرہ توجہ مرکوز کریں جوان کے حملوں کا شکار ہوتے رہے ہیں اور پھر علاج ومعالجہ کیلئے درکار انٹی ریبکیس انجکشن کیلئے در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے ہیں۔ بچوں کو سکول بسوں میں سوا ر کرنے اور واپسی پر حفاظت کے ساتھ گھرپہنچانے کیلئے بھی کتوں کے جھنڈ درجھنڈ وں سے والدین کو حفاظت پر مجبور ہونا پڑرہاہے۔ اس مخصوص مسئلے کے کئی دوسرے بھی پہلو ہیں جو توجہ طلب ہیں۔ تاہم اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ ذمہ دار اداروں کے منتظمین اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھ لیں گے اور شہریوں کو ان درندوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ضروری اور مناسب اقدامات اُٹھانے کی سمت میں از خود پہل کریں گے۔