کُکر ناگ انکائونٹر میں تین فوجی اور پولیس آفیسروں سمیت ایک اور فوجی سپاہی کی ہلاکت نے اہل کشمیر کو ایک مرتبہ پھر جھنجھوڑ کے رکھدیا ہے۔یہ سانحہ ایڈمنسٹریشن باالخصوص پولیس سربراہ کے ان مسلسل دعوئوں کہ کشمیرامن کی راہ پر گامزن ہے اور دہشت گردوں کا صفایا ہوچکا ہے اور اب ایکو سسٹم کی تباہی کی طرف توجہ مبذول کی جارہی ہے کے تناظرمیں پیش آیا ہے جو اس بات کو واضح کررہاہے کہ کئے جارہے دعویٰ ہوائوں میں تیر چلانے کی مشق کے سوا اور کچھ نہیں۔
آخری اطلاعات کے مطابق فورسز کامحاصرہ جاری ہے اور دہشت گردوں جن کا تعلق بطور پولیس کے لشکر طیبہ سے منسوب کیاگیا ہے کی پناہ گا ہ کو گھیرے میں لینے کی کوشش جاری ہے، کہانہیں جاسکتا کہ کب چھپے جنگجوئوں کے ساتھ معرکہ ہوجائے اور نتیجہ کیا برآمد ہوجائے البتہ کچھ سوال ضرور ایسے ہیں جنہیں پوچھنے کا حق ہے جو واجبی بھی ہیں اور جو کئے جارہے دعوئوں کے تناظرمیں جواب کے تعلق سے ناگزیر بھی ہیں۔
ان میں سے ایک اہم بلکہ بُنیادی سوال یہی ہے کہ مسلسل یہ دعویٰ کیاجاتارہاہے کہ جس کا اظہار پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاس کے دوران بھی کیاگیا کہ جموںوکشمیر میں دراندازی ختم ہوگئی ہے اور دراندازی کی اگر کوئی کوشش کی بھی جاتی رہی ہے تو فورسز کی جوابی کارروائی کے نتیجہ میں انہیں ناکام بنایاجاتارہا۔ اس تناظرمیں سوال یہ ہے کہ پھر دہشت گرد بھاری اسلحہ کے ساتھ واردِ کشمیر کن راستوں سے ہورہے ہیں؟ جبکہ کنٹرول لائن پر نہ صرف بھاری سکیورٹی تعینات ہے بلکہ کنٹرول لائن کے پانچ کلو میٹر علاقے میں تین تہہ در تہہ سکیورٹی تعینات ہے۔
آرمی کے ایک کمانڈر نے کُکرناگ انکائونٹر کے حوالہ سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنگجو اب نیپال اور پنجاب کے راستوں سے یہاں آرہے ہیں۔ کیا واقعی یہ بیان حقیقت پرمبنی ہے اور واقعی اگر بیان صحت کی تمام تر کسوٹیوں پر پورا اُترتا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ جو جنگجو پنجاب اور نیپال کے راستوں سے داخل ہورہے ہیں وہ کن راستوں کو اختیار کرکے کشمیر پہنچ رہے ہیں۔نیپال سے کشمیر تک ایک لمبا اور طویل زمینی مسافت ہے، ظاہر ہے وہ اسلحہ کے بغیرواردِ کشمیر نہیں ہوسکتے کیونکہ اسلحہ کے بغیر وہ اپنے کشمیر ہدف کو حاصل نہیں کرسکتے ۔ کیا ملک کی سکیورٹی اور پولیس نیپال سے کشمیر تک اتنی بے بس ہے کہ ان کی نظر دہشت گردوں کی نقل وحرکت پرنہیں اور دہشت گرد آسانی سے اسلحہ کو ساتھ لے کر واردِکشمیر ہورہے ہیں۔ ایسا لگ رہاہے کہ مذکورہ آرمی آفیسر نے بیان ہوامیںتیر چلانے کی مشق کے مصداق داغ دیا ہے جس کا مقصد بادی النظرمیں کچھ چھپا کر توجہ ہٹانے کی دانستہ کوشش سے ہے ۔
پھر اس بیان سے یہ بھی اخذ کیاجاسکتا ہے کہ نیپال کی حکومت پاکستان یا اور کسی ملک سے واردِ نیپال ہورہے جنگجوئوں او ردہشت گردوں کو پناہ بھی دے رہی ہے اور محفوظ راہداری فراہم کرکے اپنی سرزمین کو ہندوستان کے خلاف بطور لانچنگ پیڈ کے استعمال کرنے کی سمت میں معاونت کررہی ہے۔ دوسری بات پنجاب سے کشمیر تک پانچ سو کلومیٹر سے زائد کی مسافت ہے۔ مادھو پور سے برابر کشمیر تک جگہ جگہ چیکنگ کی جارہی ہے۔ صرف جموں سرینگر قومی شاہراہ جو ۲۷۰؍ کلومیٹر لمبی ہے اور جس پر چپے چپے پر فوجی اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار تعینات ہیں کی نگاہوں سے کیسے اور کیونکر مسلح دہشت گرد بچ پارہے ہیں۔
کُکر ناگ سانحہ کے تناظرمیں کشمیر نشین سیاستدانوں نے جس صدمہ اور افسوس کا اظہار کیا وہ فطرتی ہے لیکن ان میں سے کچھ نے کشمیرمیںخون خرابہ پر قابوپانے اور حالات کو پُرامن بنانے کیلئے پاکستان سے بات کرنے کا اپنا پُرانا مطالبہ دہرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بندوق مسئلے کا حل نہیں بلکہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے سے ہی امن حاصل کیاجاسکتاہے۔ مطالبہ میں جواز بھی ہے اور معقولیت بھی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک ہاتھ میںبندوق لہراکر دوسرے ہاتھ کو ٹیبل پر رکھنے کا کوئی جواز ہے۔ بندوق اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس تلخ اور زمینی حقیقت کا احساس کشمیرکے سیاستدانوں کو بھی ہونا اور کرنا چاہئے۔ صرف مذاکرات کا مطالبہ دہرانے سے کام نہیں چلے گا۔ وہ بے شک دہلی سے مذاکرات کیلئے پہل کا مطالبہ کرتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں لیکن وہ یہ مطالبہ پاکستان سے کیوںنہیں کرتے کہ وہ دراندازی کا راستہ ختم کرے ، اپنی سرزمین پر لانچنگ پیڈوں کو بند کردیں، مسلح جنگجوئوں کو کشمیرکی طرف دھکیلنے کی اپنی زائد از ۳۰؍ سالہ روش سے اب ہٹ جائیں جبکہ کشمیرمیں جاری وقفے وقفے سے خون خرابہ سے اب اپنے دامن کو مزید لہو رنگ سے محفوظ رکھیں۔ لیکن وہ ایسا نہیں کررہے ہیں، البتہ دکھائو ے کے حوالہ سے مذمتی اور اظہار افسوس کے بیانات کے میزائل ضرور داغتے رہتے ہیں۔
اس نوعیت کی بیان بازی کو بھی اب ۳۵؍ سال ہورہے ہیں ۔ حاصل صفر بھی نہیں۔ دہلی کا اپنا مخصوص نظریہ اور ایجنڈا ہے اور اسلام آباد کا بھی اپنا ایک مخصوص نظریہ اور ایجنڈا ہے ۔ ان دونوں نظریوں اور ایجنڈا کے بوجھ تلے صرف کشمیر دبا کچلا جارہاہے۔ کشمیر کی اقتصادیات، ثقافت، تہذیب ، کشمیریت، منفرد نظریہ اور تشخص کے حوالہ سے منفرد شناخت ،خاتمہ کی دہلیز پر دستک دے کر اب دہلیز عبورکرنے کی منتظر ، خون خرابہ، عدم استحکام ، معاشرتی بگاڑ کے حوالہ سے مرتب منفی رجحانات کی داستان الگ ہے۔
کُکر ناگ معرکہ یا واقعہ کشمیرکے حوالہ سے نہ پہلا ہے اور نہ آخری ثابت ہوگا، یہ کہانی ۳۳؍سال کی ہے۔ اس مدت کے دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ، ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور فورسز سے وابستہ آفیسران اور اہلکار شہادت کا جام پی چکے، بستیوں کی بستیاں اجڑ تی گئیں، ہزاروں خواتین بیوہ اور اسی تعداد میں بچے یتیم اور والدین کفالوں سے محروم ہوگئے، سلاخوں کے پیچھے کتنے ہیں صحیح تعداد معلوم نہیں، اس مخصوص منظرمیں اور کیا کچھ کشمیر کی سرزمین پر ہوا ،ہورہا ہے یا ہونے جارہا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس مخصوص پس منظرمیں بھی کشمیر کی سیاسی قیادت کے دعویدار معاملات کو صرف نظر کرتے جارہے ہیں اور بیانات کا سہارا لے کر اپنی سیاست چلارہے ہیں۔ کشمیرکے تعلق سے بار بار مطالبہ کیاجاتارہا کہ ایک مخصوص نریٹو وضع کرکے اختیار کیاجائے، برعکس اس کے صرف الیکشن کے انعقاد کی راگنی کا الاپ اور ریاستی درجہ کی بحالی پرہر تان ٹوٹتی چلی آرہی ہے۔
ہم نہیں کہتے کہ الیکشن نہیں ہونے چائیں یا ریاستی درجہ بحال نہیںہونا چاہئے بلکہ یہ دونوں جمہوریت کی اصل روح ہے لیکن جو صورتحال ہے وہ اس بات کا تقاضہ کررہی ہے کہ سیاسی قیادت کے سبھی دعویدار سرزمین کشمیر کے تحفظ اور اس کے اہل کی بقاء اور سلامتی کے حوالہ سے ایک جٹ ہوکر راستہ تلاش کریں اور اپنے اپنے پارٹی مفادات اور نام نہاد بالادستی کے جس جنون میں وہ عرصہ سے مبتلا چلے آرہے ہیں اُس راستہ کو فی الوقت حاشیہ پر رکھ کر وسیع تر مفادات کے تحفظ اور حصول کو یقینی بنانے کیلئے کام کریں۔