جموں کشمیر میں نظامت تعلیم نے درس وتدریس کے عمل کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ نہ اساتذہ خوش ، نہ بچے مطمئن اور نہ ہی والدین راحت کی کوئی سانس لے پارہے ہیں۔اگر چہ دعویٰ بلندبانگ کئے جارہے ہیں کہ یوٹی میں تعلیم کا معیار بہت بلند ہورہاہے اور جموں وکشمیر اس میدان میں ملک کی کم وبیش ہر ریاست اور یوٹی کو پیچھے دھکیل رہا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کیاجارہا ہے کہ بچوں کے داخلہ عمل میں شرح فیصد کے حوالہ سے گذرے برسوں کے برعکس بہت حد تک بہتری آرہی ہے لیکن زمین پر جو حقائق ہیں وہ کسی اور ہی دُنیا کا منظر پیش کررہے ہیں۔
محکمہ تعلیم نے ابھی چند ماہ قبل ٹرانسفر پالیسی مرتب کی اور اس حوالہ سے زون مقرر کئے۔ اس پالیسی کے تحت زون ایک سے وابستہ استاد کی تبدیلی زون دو میں نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اس نئی ٹرانسفر پالیسی کا اطلاق دوسرے زونوں پر بھی کیاگیا ہے ۔ اس پالیسی کے حوالہ سے اساتذہ کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی ان کیلئے انتہائی تکلیف دہ اور پریشانی کا موجب بن رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت پرسکول پہنچنے کیلئے انہیں بہت ساری دقتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ لمبی مسافت کی اُلجھنیں ، ٹریفک جام، تیز رفتار ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی اور دوسرے مسائل ان کی اِ ن پریشانیوں میں مزید اضافہ بلکہ بوجھ کا باعث بن رہے ہیں۔ انہیں وقت پر کلاس میں حاضری کو یقینی بنانے کیلئے بے حد جدوجہد سے گذرنا پڑرہاہے۔
نئی ٹرانسفر پالیسی کے تحت محکمہ تعلیم نے کشمیرا ور جموں خطوں سے وابستہ اساتذہ ، لیکچراروں وغیرہ سے درخواستیں طلب کیں، تبدیلی کے خواہش مند افراد کی لسٹ بھی مرتب کی گئی جس کو بعد میں مشتہر بھی کیاگیا۔ کئی ماہ کی تاخیر کے بعد چند ایک تبادلوں کے احکامات صادر کئے گئے لیکن ان احکامات کے اجراء کے ساتھ ہی احتجاج کی آوازیں یہ کہکر بلند ہونا شروع ہوئی کہ محکمہ تعلیم کنبہ پروری، اقربا ء نوازی ، اثرورسوخ اور دیگر غلط راستوں پر گامزن ہوا ہے اور صرف منظور نظروںکے تبادلے عمل میں لائے جارہے ہیں یا ان افراد کے تبادلوں کو ترجیح دی جارہی ہے جومبینہ طورسے مٹھی گرم کررہے ہیں یا وہ جواعلیٰ سطح پر اثرورسوخ کے مالک ہیں ۔
معلوم نہیں اساتذہ صاحبان کے یہ الزامات یا دعویٰ کس حد تک صداقت پر مبنی ہیں کیونکہ ہمارے پاس ان دعوئوں یا الزامات کی تصدیق کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں لیکن چونکہ الزامات اور دعوئوں کا نہ ختم ہورہا سلسلہ جاری ہے جن کی صدائے بازگشت کشمیر اور جموں کے پرنٹ میڈیا کے کچھ حلقوں میں ہورہی ہے لہٰذا درس وتدریس کے وسیع تر مفادات میں یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ کیوں محکمہ تعلیم نظامت تعلیم اور سیکریٹریٹ سطح پر بچوں کے مستقبل اور حال کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ کیاجارہاہے اور کیوں منظور نظروں کو ان کی من مرضی کے مطابق نئی پوسٹنگ میں سہولیت کار کا کردارادا کیاجارہاہے۔
اساتذہ کی ایک اچھی خاصی تعداد ان کی بھی ہے جو مختلف گھریلو پریشانیوں ،ا مراض وغیرہ میں مبتلا ہیں لیکن چونکہ ان کی پشت پناہی کیلئے کوئی نہیں ہے لہٰذا ان کی درخواستوں کو سردخانوں کی نذرکیاجارہاہے۔ اس من مرضی کے حوالہ سے جموں خطے کے اساتذہ بھی شاکی ہیں اور کشمیر خطے سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی شاکی ہے۔
معلوم نہیں کیوں یہ نئی پالیسی وضع کی گئی اور کیوں اور کس ایجنڈا کے تحت اس پالیسی کو پروان چڑھایا جارہاہے۔ حکومت یا محکمہ تعلیم اس پالیسی کو مرتب کرکے اب عملی جامہ پہنانے کی سمت میں کیا حاصل کرنا چاہتی ہے جبکہ بادی النظرمیں ہی یہ ٹرانسفر پالیسی سراپا ناکام اور ناقابل عمل ثابت ہورہی ہے۔
اس نئی پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے لیکن یہ ضمانت نہیں کہ جس ایڈمنسٹریشن نے اس پالیسی کو مرتب کیا وہ عوامی مطالبات پر ہمدردانہ توجہ دے کر کیوں پیچھے ہٹے گی جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنی اس اختراع کو اپنے لئے وقار کا مسئلہ بھی بناسکتی ہے۔ لیکن جو کچھ بھی ہے یہ پالیسی بچوں کی پڑھائی کی راہ میں کئی اعتبار سے حائل ہورہی ہے جبکہ وہ اساتذہ جن کی اس نئی زمرہ بندی کی روشنی میں تعیناتی کی گئی ہے وہ اپنے گھروں یا رہائشی علاقوں سے دس سے تیس کلومیٹر کی مسافت پر ہیں۔ جو کچھ بھی ہے وقار کا مسئلہ بنائے بغیر اس نئی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور معاملہ ہمدردانہ رویہ اور اپروچ کا تقاضہ کرتا ہے۔
صرف کشمیر خطے میں بے چینی نہیں بلکہ جموں خطے میں بھی بے چینی پائی جارہی ہے۔ جموں سے شائع ہورہے ایک انگریزی اخبار نے آج (۱۲؍ستمبر) کی اشاعت میں اس بے چینی کے حوالہ سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میںاور باتوں کے علاوہ کہاگیا ہے کہ صرف منظور نظراساتذہ کی ان کی من چاہی تعیناتی عمل میں لائی جارہی ہے۔ زون ایک سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو زون دوئم میں تقرری عمل میں لائی گئی ہے جبکہ زون تین اور زون چہارم سے وابستہ اساتذہ کو دور دراز علاقوں میں پھینک دیاگیاہے۔
سادہ سا سوال یہ ہے کہ جن مقاصد کے حصول کیلئے ٹرانسفر پالیسی مرتب کی گئی ہے لیکن عمل آوری کے حوالہ سے اب اگر پالیسی کے نفاذ کے محض چھ ماہ کے اندر اندر ہی مشکلات پیش آرہی ہیں، بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ اپنی پریشانیوں اور تکالیف کو زبان دے کر ایڈمنسٹریشن سے اپیل کررہے ہیں کہ ان کی تقرریوں کو نزدیکی تعلیمی اداروں میں تعینات کیاجائے تاکہ وہ بچوں کی تعلیم وتربیت کی طرف مناسب توجہ اور وقت وقف کرسکیں اور خود وہ ذہنی کوفتوں سے آزاد رہیں تو پالیسی ساز ادارے اور ان کے منتظمین کیوں اساتذہ کی اپیلوں کو اپنے لئے جھوٹے وقار اور انانیت کا مسئلہ بنارہے ہیں؟
جدیدیت، لچک، معقولیت اور ترقی کے حوالہ سے نظریہ ،پالیسی اور اپروچ اپنی جگہ اور ان کی مخالفت یا تنقید کرنے کاکوئی اخلاقی جوازنہیں لیکن انہی کی آڑ میں نظام تعلیم کو انتشار اور نتیجتاً تباہی کی دہلیز تک دھکیلنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ جموں وکشمیر بحیثیت ریاست اور اب بحیثیت یوٹی اس سنگین المیہ اور بدقسمتی سے دو چار ہے کہ یہاں نظامت تعلیم کی سرپرستی کا تاج غیر تعلیمی بیروکریٹوں کے سر پر سجایا جاتا رہاہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ماہرین تعلیمات کوہی نظامت تعلیم کا سرپرست تعینات کرنے کی پالیسی کو حرف آخر قراردیاجاتا ۔ کوئی بھی بیروکریٹ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ وہ ہرفن مولا ہے اور ہر مضمون کا ماہر اعلیٰ ہے۔