کورپشن سے پاک جموں وکشمیر کی تعمیر کی سمت میں اقدامات کا آغاز کردیاگیا ہے۔ اس تعلق سے چیف سیکریٹری ڈاکٹر ارن کمار مہتا کا کہنا ہے کہ اب جموںوکشمیرمیں بدعنوانی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ تمام تر خدمات آن لائن کردی گئی ہیں۔ انتظامیہ اور عوامی زندگی سے کورپشن اور بدعنوانیوں کا خاتمہ کرنے کی سمت میں انتظامی سطح پر متعارف کئی اقدامات کی نشاندہی کرتے ہوئے چیف سیکریٹری کا کہنا ہے کہ اب پورا روپیہ زمین پر پہنچ رہا ہے۔
جموںوکشمیر کو کورپشن اور بدعنوان طرزعمل سے پاک دیکھنے اور اُس پاک ماحول میں رہنے کی آرزو اور تمنا کس میں نہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اوسط شہری کی یہ تمنا مختلف وجوہات اور ناجائز سرپرستی کے ہوتے حسرت ہی بنی ہے۔ اس تلخ اور زمینی حقیقت سے انکار کی ذرہ بھر بھی گنجائش نہیں کہ جموںوکشمیر میں کورپشن اور بدعنوان طرزعمل کی سرپرستی اعلیٰ سیاسی سطح پر ہوتی رہی ہے۔ جس نے آہستہ آہستہ نہ صرف معاشرتی سطح پر کم وبیش سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بلکہ انتظامیہ کا کم سے کم ۹۰ فیصد سیٹ اپ کورپشن اور بدعنوانی کی گنگا میں ڈبکیاں لگاتا رہا۔
ایک وقت وہ بھی آیا جب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے جموں وکشمیر کو ہندوستان کی دوسری بڑی کورپٹ ریاست قراردیا ۔ حکومتی اور سیاسی سطح پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اس دعویٰ کو چیلنج نہیں کیاگیابلکہ ہر سطح پر خاموشی اختیار کی گئی، عوامی سطح پر ایڈمنسٹریشن اور سیاسی قبیلوں کی اس خاموشی کو رپورٹ پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے مترادف قرار دیاگیا۔ فی الوقت جموںوکشمیر کا درجہ کیا ہے، معلوم نہیں البتہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کورپشن اور بدعنوان طریقہ کار کسی نہ کسی حوالہ سے اور کسی نہ کسی شکل میںموجود بھی ہے اور اس کا چلن بھی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ای …گورننس اور معاملات اور روزمرہ کام کاج کو ڈیجٹلائز کرنے کے نتیجہ میں بدعنوان اور کورپٹ طرزعمل کی رفتار میں کمی آگئی ہے لیکن یہ ختم ہوگئی ہے درست نہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ چور چوری سے جائے لیکن ہیر ا پھیری سے نہیں ، اسی طرح کورپٹ اور بدعنوان ذہنیت اور طرزعمل کے حامل اپنی خود سے نہ باز آسکتے ہیں اور نہ اپنی وضع بدلنے کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔وہ راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مطمئن نہیں بلکہ آبادی کا کوئی نہ کوئی طبقہ کسی نہ کسی حوالہ سے شاکی ہے۔ نجی سطح پر ان سے بات کی جائے تو بات کی پہلی تان بدعنوان طرزعمل اور کورپٹ طریقہ کار پر ٹوٹ جاتی ہے۔
کورپشن اور بدعنوانیوں سے عبارت اس مکروہ سائیکل کو توڑنا ضروری بن گیا ہے۔ اس کیلئے انتظامی سطح پر مختلف نوعیت کے اقدامات متعارف کرنے کا راستہ اختیار کرنا ہوگا صرف قوانین کو وضع کرنے اور ان کی الاپ سے کورپشن کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ہے اس سمت میں سرکاری ٹیبل پر سات روز سے زائد فائل کا ٹھہرائو ناممکن بنانے کی سمت میں حالیہ انتظامیہ ہدایت نامہ ایک مستحسن قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ دفتری گھس گھس کورپشن اور بدعنوان طرزعمل کا ہی دوسرا روپ ہے۔ اس ریڈ ٹیپ ازم کا انتظامیہ کے ہر ایک شعبے سے خاتمہ وقت کا ہی تقاضہ نہیں ہے بلکہ ریاست کی ترقیاتی عمل کو بغیر کسی رخنہ کے آگے بڑھانے کی سمت میں اب بدلتے حالات میں ناگزیر بن چکا ہے۔
عام خیال یہ ہے یا گمان کہ انتظامیہ کی نچلی اور درمیانہ سطح پر کورپشن عام ہے لیکن یہ سارا سچ نہیں ہے بلکہ سچ کا ایک آدھ حصہ یہ بھی ہے کہ اعلیٰ سطح پر اعلیٰ حجم کا کورپشن موجود ہے،چھوٹا ملازم چند ہزار روپے تک کے لین دین میںملوث پایا جاتا رہا ہے لیکن جب سابق گورنر ست پال ملک نے کورپشن کے حوالہ سے کسی پیشکش کا دعویٰ کیا تو وہ تین سو کروڑ روپے کے حجم کا تھا۔ اور اب حال ہی ایک اعلیٰ آفیسر کا یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ تین ہزار کروڑ کا سکینڈل موجود ہے۔ست پال ملک کے دعویٰ کے تناظرمیں ایک سینئر آئی اے ایس آفیسر کویہاں سے چلتا کردیاگیا اور پھر اس کے اثاثوں کی چھان بین کے حوالہ سے نہ صرف خود بلکہ اس کی بیگم سے وابستہ معاملات کو بھی چھاپوں اور تحقیقات کی گرفت میں لایاگیا۔
ان دو مخصوص معاملات کے منظرعام پر آنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کورپشن صرف ایڈمنسٹریشن کی نچلی یا درمیانہ سطح پر نہیں بلکہ اعلیٰ قیادتی سطح پر سرائیت کرچکا ہے اور کورپٹ اس میں خوب نہا رہے ہیں۔ جموںوکشمیر سے کورپشن اور بدعنوان طرزعمل کا خاتمہ کیوں نہیں ہورہا ہے اس کی چند ایک وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ متعلقہ ادارے فرض شناس تو ہیں لیکن تساہل ان پر حاوی ہے۔پھر ماضی میںیہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ کیس مرتب کرتے وقت کوئی نہ کوئی سقم رہنے دیا جاتا رہا ہے یا کیس کو کمزور بُنیادوں پر مرتب کیاجاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میںاکثرملوث چھوٹ جایا کرتے تھے چاہئے وہ بوری سکینڈلوں میںملوث رہے ہوں یا پول سکینڈلوں میں سراپا ملوث رہے ہوں یا اور کسی سکینڈل سے ان کی وابستگی رہی ہو۔
کورپشن اور بدعنوان طریقہ کار کی شہادت زمین پر موجود بعض حقائق اور شواہد کی بنا پر بھی دستیاب ہے ۔ لیکن جو لوگ حاصل کرنے میںکامیاب رہے ہیں وہ خود کو قانون کی گرفت سے بچانے اور محفوظ رہنے کے راستے بھی جانتے ہیں۔ جموں وکشمیربدعنوانیوں اور کورپشن کی وباء کی لپیٹ میں نہ آتا اگر اعلیٰ سیاسی سطح پر کورپشن اور بدعنوان طرزعمل کے ساتھ ساتھ کنبہ پروری ، اقربا نوازی اور ناجائز استحصال کی سرپرستی نہ کی گئی ہوتی۔ اگر چہ ماضی کے حوالہ سے وزراء ہی کورپشن کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں اور آوازیں بلند کرتے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آوازیں بلند کرنے والے ہی اصل میں کورپشن اور لوٹ کے سرپرست تھے۔
بہرحال ماضی ماضی ہے اور حال حال ہے۔ گڑھے مردے اکھاڑنے سے بہتر یہ ہے کہ حال پر نظر رکھی جائے اور بھر پور توجہ اس وباء کے خاتمہ کیلئے مبذول کی جائے۔ اس تعلق سے ایڈمنسٹریشن نے اعلیٰ سطح پر جس مہم کا آغاز کردیا ہے اُس مہم کو کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ عوامی سطح پر کورپشن کے خلاف رائے عامہ بھی منظم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عوامی سطح پر اشراک اور تعاون کے بغیر کورپشن سے پاک جموںوکشمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔