جموں کے نام پر جموں نشین ’’ٹکڑے ٹکرے گینگ‘‘ پھر سے سرگرم ہوگئی ہے اور جموں کے حوالہ سے اپنے اختیار کردہ ایجنڈا کو تقویت پہنچانے کیلئے ایک نئے روپ میں جلوہ گر ہے۔ اس ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی سرپرستی اور سربراہی مفتی محبوبہ کی قیادت میں سابقہ بی جے پی اور پی ڈی پی کی وزارتی کونسل کے ایک رکن چودھری لال سنگھ کررہے ہیں جنہیں وزارتی کونسل سے اس بنا اور منافرت سے عبارت کرداراداکرنے کی پاداش میں برطرف کردیا گیاتھا کہ انہوںنے رسانہ کٹھوعہ کی ۸؍سالہ معصوم بچی کے اغوا، اجتماعی عصمت دری اور پھر سفاکانہ قتل میں ملوث درجن بھر مجرمین کو پناہ دینے اور انہیں بے گناہ اور معصوم جتلانے کیلئے ایجی ٹیشن چلا کر پولیس کی طرف سے تحقیقات میں رخنہ انداز ہونے میں ملوث پایاگیا تھا۔
اگر چہ چودھری پہلے بھی جموں پر مشتمل ایک علیحدہ ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا رہا ہے لیکن اب کی بار وہ اپنے اس ٹکڑے ایجنڈا کو آگے بڑھا کر شدت عطاکرنے کیلئے ریلیوں کو نہ صرف منظم کررہا ہے بلکہ مطالبہ کررہاہے کہ جموں کی مخصوص شناخت کی بحالی کیلئے نہ صرف اسے ریاستی درجہ دیاجائے بلکہ آئین کی دفعہ ۳۷۱؍ کا اطلاق بھی یقینی بنایاجائے۔ چودھری کا ایجنڈا اور مکروہ منصوبہ واضح ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ سابق ڈوگرہ ریاست جموں وکشمیر کو مزید دو حصوں میں تقسیم کردیاجائے جو ریاست پہلے ہی چین، پاکستان اور سرحد کے اِس پار چار پانچ حصوں میں تقسیم درتقسیم ہوچکی ہے اور جس ڈوگرہ ریاست کو ڈوگرہ حکمرانوں نے ۱۹۲۷ء میں سٹیٹ سبجیکٹ قانون وضع اور نافذ کرکے نہ صرف جموں بلکہ پوری ریاست جموں وکشمیر کو ایک مخصوص شناخت اور بیرونی ہوس پرستوں اور حریصانہ نگاہیں اور عزائم رکھنے والے بیرونی عنصر کے خلاف بطور ایک موثر ہتھیار اور قانونی تحفظ فراہم کیاتھا۔
ڈوگرہ حکمرانوں کے اسی قانون جسے مرکزی سطح پر آئین میں ۳۵؍ اے کے عنوان کے تحت شامل کرلیاگیا تھا اور جس کی نسبت دفعہ ۳۷۰؍ کے ساتھ بھی منسوب تصور کی جاتی رہی چودھری لال سنگھ ایسے سیاسی ابن الوقت اور نظریاتی فرقہ پرست عنصر ان دفعات کو ’’کشمیر مخصوص‘‘ قرار دے کر پورے ملک میں زہر یلا پروپیگنڈہ کرتے رہے کیونکہ یہ دونوں آئینی تحفظات ان کے حلق سے نیچے نہیں اُتر پارہے تھے لیکن اب جبکہ کالعدمی کے منفی اثرات اور نتائج سامنے آرہے ہیں اور خود جموں زیادہ متاثر ہوتا جارہاہے اب چودھری کی سوچ کے حامل عنصر دفعہ ۳۷۱ کے نفاذ کامطالبہ کررہے ہیں۔ ۱۱؍ریاستوں کو دفعہ ۳۷۱؍ کے تحت جو حقوق اور تحفظات حاصل ہیں وہی حقوق اور تحفظات دفعہ ۳۷۰؍ کے تحت جموںوکشمیر اور لداخ کو حاصل تھے، جس کا برملا اعتراف ابھی ابھی سپریم کورٹ میں جاری بحث کے دوران بھی کیاگیا۔
بہرحال جموںکی کھوئی شناخت کی بحالی کیلئے جدوجہد نہ کوئی سازش ہے اور نہ جرم البتہ جموں کی جس مخصوص شناخت کا دعویٰ کیاجارہاہے اُس شناخت کی نسبت ڈوگرہ ریاست کے حوالہ سے کشمیر سے بھی ہے اور اس اعتبار سے دونوں صوبوں اور بحیثیت مجموعی جموں وکشمیر کی مخصوص شناخت ختم ہوگئی ہے۔اس تناظرمیں جموں کی مخصوص شناخت کیلئے بات کرنا اور کشمیر کو حاشیہ پر رکھنا کیا صریح فرقہ پرستی اور علاقہ پرستی نہیںہے، کیا یہ نعرہ ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور کشمیراور جموں کے لوگوں کے درمیان آپسی روابط، کاروبار، تجارت، زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالوں سے کچھ معاملات میں قدرمشترک کی بیخ کنی کرنے اور آپسی تعلقات میں جنون پر مبنی دراڑیں ڈالنے کا مذموم اور مکروہ ایجنڈا کا حصہ نہیں؟
تعجب تو اس بات پر ہے کہ اگر کشمیرمیں کسی نے کشمیرکے حوالہ سے انہی خطوط پر کوئی سیاسی سرگرمی دکھائی ہوتی اور اسی نوعیت کی بیان بازی کی ہوتی تو ساری ایڈمنسٹریشن حرکت میں آئی ہوتی، تمام ایجنسیاں متحرک نظر آتی اور ایسی کسی نظریاتی سرگرمی میں ملوث کسی فرد یا جماعت کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی ہوتی لیکن جموں کی اس مخصوص ٹکڑے گینگ کے خلاف گذرے چار سال کے دوران اس کی یوٹی اور یوٹی کے عوام کے خلاف دُشمنانہ اور مذموم عزائم اور سرگرمیوں کے واضح ثبوت کے باوجود قانون کسی حرکت میں نظرنہیں آرہاہے۔ کیوں؟ کیا اس کے پیچھے کوئی مصلحت ہے یا مجبوری ہے یا کوئی طاقتور ہاتھ چودھری کی سرپرستی کررہاہے؟
جموںوکشمیر بے شک آبادی کے حجم کے اعتبار سے نہیں البتہ رقبہ اور جغرافیائی حیثیت کے اعتبار سے شمالی ہندوستان کی یوپی کے بعد ایک بڑی ریاست تھی۔ لیکن پاکستان نے اس کے ایک حصہ پر قبضہ کرلیا، چین نے اکسائی چن کا علاقہ ہتھیالیا جس علاقہ کو ابھی چند گھنٹے قبل چین نے بالآخر جاری نئے نقشے میں اپنا علاقہ قراردیا، گلگت اور بلتستان کوعلیحدہ کرکے پاکستان میں ضم کردیاگیا، لداخ کو جموں وکشمیرسے کاٹ کر علیحدہ یوٹی بنایاگیا او راب چودھری اپنے جنونی اور علاقہ پرست سیاستدانوں اور فرقہ پرستوں پر مشتمل کچھ ٹولیاں جموں کوکشمیر یا کشمیر کو جموں سے کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مذموم مطالبہ کررہی ہیں۔ اس نوعیت کی سرگرمیوں کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ نہ کہاجائے تو پھر کیا نام دیا جائے۔
چودھری لال سنگھ کی کشمیرمخالف منافقت، سوچ اور اپروچ نیانہیں بلکہ جب وہ کانگریس سے وابستہ تھے اور پھر جب بی جے پی سے وابستگی رکھتے تھے وہ بار بار اپنی اس سوچ اور طرزعمل کو یہ کہکر زبان دیا کرتے رہے کہ جموں میں جو کچھ بھی بقول اُن کے غلط ہورہا ہے وہ کشمیر کا انفیکشن ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ عموماً اپنے ذاتی اور مکروہ مقاصد کی تکمیل کیلئے کشمیر اور کشمیریوں کو نشانہ بناکر ان کی کردار کشی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ اب کی بار بھی جب وہ جموں پر مشتمل علیحدہ ریاست کی تشکیل وقیام کا نعرہ بلند کررہے ہیں تو اُس میں بھی کشمیر مخالفت میں اس کے ذاتی عزائم بے نقاب ہورہے ہیں۔
دراصل تاریخ کی ورق گرانی کرنے بیٹھ جائیں تو یہ سچ آشکارا ہوجاتا ہے کہ جموں کی کشمیر سے علیحدگی اور جموں اور ہماچل پر مبنی گریٹر جموں یا گریٹر ہماچل کے منصوبے یا خاکے کا تصور جموںوکشمیر کی ڈوگرہ ریاست کی تشکیل کے بانی کے ایک جانشین نے کئی دہائیاں قبل پیش کیاتھا۔ یہ زہر اُسی کا بویا ہوا ہے جو آہستہ آہستہ پھیلتا گیا اور جموںنشین کچھ مخصوص ذہنیت کے حلقوں نے اس کو اپنا ایجنڈا بنایا اور اس ایجنڈا کی قیادت چودھری لال سنگھ کے ہاتھ میں سونپی گئی ہے یا چودھری نے از خود اسے اپنا لیا ہے۔