لوگوں کو بہتر اور قابل اعتماد ٹرانسپورٹ سروس دستیاب رکھنے کی غرض سے سمارٹ سٹی پروجیکٹوں کے تحت سرینگر اور جموں کیلئے الیکٹرانک گاڑیاں وقف کی جارہی ہیں۔ان گاڑیوں کو عوام کیلئے مکمل طور سے دستیاب رکھنے کیلئے ابھی اگرچہ کچھ ایک مہینے مزید درکار ہوں گے لیکن دونوں شہروں میں ان ای …گاڑیوں کی آزمائشی سروس کے بارے میں بتایاجارہا ہے کہ یہ کامیاب رہی ہیں۔
دونوں شہروں کیلئے سو، سو بسیں دستیاب رکھی جارہی ہیں جن کیلئے ٹاٹا نامی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیاگیا ہے ۔ سرکاری حلقوں کو اُمید ہے کہ ان بسوں کی دستیابی سے مسافروں کو جن کئی ایک مسائل اور مشکلات کا عرصہ سے سامنا ہے ان پر قابو پالیاجائے گا او رمسافر بحیثیت مجموعی خود کو آرام دہ سفر میں پائیں گے کیونکہ یہ ای … بسیں جدید ترین الیکٹرانک اور خود کار آلات سے لیس ہوں گی جبکہ ہر بس روزانہ اوسط دو سو کلومیٹر تک سفر طے کیا کرئیگی۔
فوری طور سے عوام کا ردعمل خاموشی سے عبارت ہے کیونکہ ابھی لوگوں کو ان بسوں کی سواری اور سفر کا موقعہ نہیں ملا ہے ۔ البتہ ٹرانسپورٹ سروسز میں سہولیات دستیاب رکھنے کی ایڈمنسٹریشن کی کاوشوں پر اطمینان کا اظہار بھی کیاجارہاہے اور خاموش خیر مقدم بھی۔ لوگوں کے اس اطمینان اور خاموش خیر مقدم کی بُنیادی وجہ یہ ہے کہ اوسط مسافر موجودہ ٹرانسپورٹ سروسز سے مطمئن نہیں ہیں، یہ ٹرانسپورٹ سروسز نجی ہاتھوں اور نجی ملکیت میں ہے جو اب وقت گذرتے اجارہ دارانہ روپ دھارن ہی نہیں کرچکا ہے بلکہ مختلف معاملات کے حوالہ سے من مانیوں کا ایسا چلن ہے کہ اوسط مسافر کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔
شرح کرایوں کی وصولیابی کے حوالہ سے من مانیاں، روٹوں پر اجارہ دارانہ قبضہ، مسافروں کے ساتھ ناروا اور ناشائستہ سلوک، دھکم پیل ، بھیڑ بکریوں کا ریوڈ سمجھ کر اور لوڈنگ کی وباء، گاڑیوں کی خستہ حالت اور ان کے انجر پنجر کا ڈھیلا پن سے قطع نظر اور بھی کئی مشکلات کا لوگوں کوسامنا ہے۔جن میں خاص طور سے شام کے بعد تقریباً ۹۰ فیصد روٹوں پر سے سروسز بند کرنے کا غیر ذمہ دارانہ طریقہ کار اور طرزعمل عام شہریوں، کاروباریوں، سیلز مینوں اور کاریگر طبقوں کیلئے خاصہ پریشانیوں اور مشکلات کا موجب بنا ہوا ہے۔
ان سارے تکلیف دہ پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اب اگر ایک نئی جدید طرز کی ٹرانسپورٹ سروسز کی خدمات دستیاب رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے تو واجب یہی ہے کہ لوگ اس کا خیر مقدم کریں اور اپنے وسیع ترمفاد میں اس سروس کوکامیاب بنائیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خدشات بھی اپنی جگہ موجودہیں کہ یہ کشمیر ہے جہاں کوئی کل سیدھ نہیں ہے ، یہاں اجارہ دار طبقے اور مفاد پرست حلقے عوام کی سہولیات کے تناظر میں کسی بھی نئی سہولیات کا خیر مقدم کرنے اور خود کو بدلنے کی بجائے ناکام بنانے کیلئے مختلف لبادے اوڑھ کر میدان میں اُترتے رہے ہیں۔ ا س حوالہ سے ایک تازہ ترین تجربہ اور مشاہدہ ان دنوں تقریباً ہر روز مشاہدہ میں آرہا ہے کہ پرانے آپریٹر ای …رکھشہ سروسز کے خلاف یہ کہکر منظم ہورہے ہیں کہ ان کا روزگار متاثر ہورہاہے اور بینکوں سے جو قرضے انہوںنے حاصل کررکھے ہیں ان کی اقساط کی واپس ادائیگی اب ممکن نہیں ہو پارہی ہے۔
ان آپریٹروں کواصل میں تکلیف یہ ہے کہ ای …رکھشہ اپنی خدمات کے عوض اگر پچاس روپے وصول کررہے ہیں تو اسی مسافت کیلئے اپنی خدمات کے لئے وہ پانچ سو روپے وصول کررہے ہیں۔ لوگوں کی جیبیں بینک یا خیراتی ادارے نہیں کہ ثواب اور اجر سمجھ کر پرانے آپریٹروں کی جھولی میں ڈالتے رہیں،جب نئی خدمات انہیںکئی گنا کم کرایہ کی ادائیگی کے عوض دستیاب ہیں تو وہ کیوں پرانے آپریٹروں کی خدمات حاصل کریں۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ آئے روز ایڈمنسٹریشن اور متعلقہ اداروں کی جانب سے آپریٹروں کو اپنی خدمات میں بہتری لانے اور اپنے طریقہ کا ر میںآئے روز کی تبدیلیوں کی مناسبت سے سدھار لانے کا مشورہ دیاجاتا رہا ہے ، کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پرائیوٹ سروسز سے وابستہ آپیٹروں کو بار بار ہدایت دی جاتی رہی کہ وہ شام کے بعد اپنی سروسز اپنے مقررہ روٹوں پردستیاب رکھیں، کیا یہ بھی سچ نہیں کہ انہیں بار بار کہا جاتا رہا کہ وہ پرانی گاڑیوں، جن کی مقررہ معیاد ختم ہوچکی ہے کی جگہ نئی سروسز کا بندوبست کریں لیکن اجارہ داری کی بدمستی میں نہ کسی طرح کی تبدیلی لائی جارہی ہے اور نہ یہ لوگ خود اپنا طرز عمل بدلنے کیلئے آمادہ ہیں ۔
اس مخصوص تناظر باالخصوص عوام کو جن مشکلات کا سامنا ہے کے پیش نظر اب اگر ایڈمنسٹریشن نے جدید طرز کی بس سروس سرینگراور جموں شہروں کے لئے متعارف کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر ابروئیں تن کرنے کا کون سا جواز اور مخالفت کا اخلاقی جواز بنتا ہے۔
لوگ چاند اور تاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں اور ان کا وشوں میںکامیاب بھی ہورہے ہیں لیکن کشمیر ہے کہ نہ اپنی وضع بدلنے کیلئے تیار ہے اور نہ خو، لکیر کا فقیر بنے رہنے کی ترجیحات اور خوگریت نے ہی کشمیر کو زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالوں سے پسماندہ بنارکھا ہے، معلوم نہیں کہ یہ انداز فکر اور اپروچ کب تک ہر قدم اور ہم پلہ رہے گا لیکن دانشوروں اور صاحب بصیرت کا قول ہے کہ ’خدا ان لوگوں کی حالت نہیں بدلتا ہے جب تک نہ وہ خود اپنی حالت بدلنے کا راستہ اختیار کریں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بہت کم اس اقوال زریں پر اعتقاد رکھ کر عمل کرتے ہیں۔
بہرحال ای بس سروس کا بحیثیت مجموعی خیر مقدم لیکن اس سروس کے منتظمین ، جو بھی ہیں ان کیلئے لازم ہیں کہ وہ سڑکوں کی خستہ حالت کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں، ای بسوں کیلئے ای چارجنگ پوائنٹوں کی تنصیب اور قیام کو یقینی بنائیں، روٹوں کی عوام کی مجموعی ضروریات کی روشنی میںنشاندہی کریں اور ان سب پہلوئوںکو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مروجہ ٹریفک مینجمنٹ کو فرسودہ طریقہ کار سے باہر نکال کرموجودہ ضروریات کے مطابق خطوط پر استوار کرنے کی طرف توجہ مبذول کرنے اور ٹھوس اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے، ایسا نہ کیاگیا تو نئی ای بس سروس کا سارا ڈھانچہ زمین بوس ہو کررہ جائے گا اور اس سروس کا حشر بالکل وہی ہوگا جو آرٹی سی کا ہوچکا ہے۔