سرینگر میونسپل کارپوریشن (ایس ایم سی) کچھ عرصہ سے واد وِ واد کے گھیرے میں ہے۔ یہ عوامی اہمیت کا حامل اہم ترین ادارہ کچھ لوگوں کی آنکھ کا تارا ہے تو کچھ کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ مختلف معاملات اور الزامات کے حوالہ سے کچھ کے خلاف اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہورہی ہے جبکہ سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے تحت مختلف کاموں کے حوالہ سے یہ ادارہ زبردست عوامی اور کاروباری حلقوں کی تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ کچھ حلقے سمارٹ سٹی کے تحت پروجیکٹوں کی تکمیل کے حوالہ سے ایس ایم سی کی کارکردگی کی تعریفوں کے پُل باندھ رہے ہیں جبکہ کچھ حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پروجیکٹوں کا افتتاح کے محض ۲۴؍ گھنٹوں کے اندر اندر ان میں سے کچھ پروجیکٹ ٹھپ ہوگئے، کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے،اس کی وجہ مبینہ کورپشن ، کمیشن کی وصولیابی اور ناقص کارکردگی بتائی جاتی ہے۔
سرینگر میونسپل وادی کشمیرکے ان چند اداروں کی فہرست میں شامل ہے جن کی عمر ایک سو سال سے زائد ہے۔ یہ ادارہ ۸۸۶ ۱ء میں تشکیل پاگیا، اپنی عمر کے ۱۳۷؍ سال گذرنے کے باوجود یہ ادارہ خدمات اور کارکردگی کے حوالہ سے ابھی اتنی کامیابی یا مقام حاصل نہیں کرپایا ہے جو کامیابی یا مقام اس کے ہم عمر ادارے حاصل کرچکے ہیں۔سرینگر میونسپل کے ۷۴ وارڈوں کے رائے دہندگان کی اکثریت بھی اپنے ہاتھوں منتخب کونسلروں کی اب تک کی کارکردگی سے مطمئن نہیں جبکہ بحیثیت مجموعی اس ادارے کو ہر دور میں ’سیاست زدہ ‘بنانے کی کوششوں پر برہم ہیں۔
ڈپٹی میئر کے خلاف کچھ مدت سے مختلف نوعیت کے عائد الزامات کی تحقیقات جاری ہے جبکہ اندرون خانہ گروپ بندی کی بیماری نے بھی اس ادارے کی مجموعی کارکردگی کو گہن زدہ بنارکھاہے۔ ادارہ کو سیاسی اکھاڈہ میں مزید تبدیل کرکے اور اس کے سیاسی اکھاڑے کی حیثیت اور رتبے کو مزید مستحکم بنانے کی سمت میں کانگریس سے اپنی وابستگی جتلانے والے کچھ کونسلروں نے کانگریس کا چوغہ پھینک دیا اور کانگریس کے ایک سابق سینئر لیڈاور آزاد پارٹی کے سرپرست غلام نبی آزاد کی پارٹی کا لبادہ اوڑھ لیا ۔کوٹ کی تبدیلی کا یہ واقعہ عین اس وقت سامنے آیا یا لایاگیا جب کانگریس کی ہائی کمان نے کشمیر سے اپنے دو لیڈروں کو بحیثیت رکن نامزد کیا۔ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ یہ محض ایک اتفاق ہے جس کا تعلق کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے لئے کشمیر سے دو ارکان کی نامزدگی کے ساتھ ذرہ بھر بھی نہیں لیکن سیاسی مبصرین اس دلیل یا مفروضہ کو ماننے کیلئے تیار نہیں بلکہ ان کی رائے یہ ہے کہ آزاد صاحب نے اس کے سات میونسپل کونسلروں کو اپنا ہم خیال بناکر کانگریس ہائی کمان کو کوئی پیغام دینے کی کوشش کی ہے ۔
ٍ قطع نظر ان مفروضات یا آراء کا سوال یہ ہے کہ جو میونسپل کونسلر چوغہ پہن کر نئے پیرھن میں جلوہ گر ہوئے ہیں کیا انہوںنے اپنے وارڈوں کے رائے دہندگان سے اپنی سیاسی وابستگی کی تبدیلی کے حوالہ سے اعتماد میں لیا؟ کیا ان رائے دہندگان نے اس تبدیلی کے بارے میں انہیں اپنا اعتماد تھمادیا؟جواب یقینا نفی میں ہے کیونکہ سیاست میں عوام کا منڈیٹ حاصل کرنے کے بعد منڈیٹ حاصل کرنے والوں کی ایسی کوئی روایت یا تاریخ نہیں ہے کہ جب انہوںنے یا ان میں سے کسی ایک نے بھی عوام کے پاس واپس جاکر انہیں اپنی سیاسی وابستگی کی تبدیلی پر اعتماد میں لیا ہو یا ایسا کوئی راستہ اختیار کیا ہو۔
معلوم نہیں کہ جو لوگ آزاد صاحب کی جھولی میں بیٹھ گئے ہیں ان کا سیاسی قد کیا اور کتنا ہے البتہ اتنی معلومات ضرور ہیں کہ جب اُس وقت کے مشیر بصیر خان صاحب ان ممبران سے حلف لے رہے تھے کونسلران کی اکثریت حلف کے چند جملے ٹھیک طرح سے ادا بھی نہیں کرپارہے تھے اور حالات سے مجبور ہو کر مشیر وقت نے ایک ایک لفظ اداکرکے حلف برداری کی اُس تقریب کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔ اُسی وقت لوگوں کو ان کی صلاحیت، اہلیت اور ذہانت کا کچھ کچھ اندازہ ہوا۔ بہرحال وہ ممبران بن تو گئے اپنے لئے پروٹوکول بھی اور مختلف مراعات کے اہل بھی بن گئے لیکن عوامی خدمات کے تعلق سے ہر وارڈ کا منظرنامہ تقریبا ًتقریباً مایوس کن ہے ۔ اگر چہ ان میں سے کچھ ایک کے بارے میں عوامی سطح پر اطمیان پایا جارہا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ہر بلدیاتی ادارہ ، چاہئے شہر کا ہے یا دھ کا ہے پر اپنا کنٹرول اور دبدبہ مسلط کرنے کی کوشش کم وبیش ہر سیاسی جماعت کرتی ہے۔ ان کوششوں کے پیچھے علاقہ پر کنٹرول اور رائے دہندگان کو اپنا سیاسی غلام بنانے کی چاہت کے سوا اور کچھ نہیں۔ لیکن جس کسی سیاسی جماعت کا دبدبہ یا کنٹرول قائم ہو بھی جاتا ہے تو دوسری ٹانگیں کھینچنے اور ارکان کی دل بدلی کو یقینی بنانے کیلئے سرگرم ہوجاتی ہیں۔ کوئی سیاسی جماعت ان عوامی اداروں کو عوام کی بلدیاتی سہولیات اور خدمات کیلئے وقف کرنے کی سمت میں کوئی معمولی ساکردار اداکرتی بھی نظرنہیں آرہی ہے ۔
سرینگر مونسپل کارپوریشن کا معاملہ ہو یا وادی کے کچھ دوسرے اسی نوعیت اور اہمیت کے عوامی ادارے، ان کے قیام سے لے کر برابر اب تک اندر ہی اندر کھینچا تانی کا سلسلہ جاری ہے ، کبھی عدم اعتماد کی تحریک کا سہارا لیاجارہاہے ، کبھی ایک دوسرے پر بدعنوان اور کورپشن کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں، تو کبھی کچھ ایسے الزامات کو بھی زبان دی جارہی جن الزامات کو قلم لکھنے سے قاصر ہے۔
سرینگر میونسپل کارپوریشن کا موجودہ سربراہ ایک نوجوان آئی اے ایس آفیسر ہے، مقامی ہے اور اس حوالہ سے وہ مقامی ضروریات اور عوام کی خواہشات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ ان سے یہی توقع کی جارہی ہے کہ وہ اس ادارے کی نوک پلک کو اچھی طرح سے سنواریں گے اور صحتمند خطوط پر اس کو استوار کریں گے۔ عوامی خدمات کے حوالہ سے جتنے بھی شعبے ہیں انہیں فعال، متحرک اورموثر بنانے کی سمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں ہونے دیں گے۔ چاہئے معاملے کا تعلق صحت وصفائی سے ہے، مارکیٹ میںملاوٹ آمیز خوردنی اشیاء کی خرید وفروخت اور دستیابی سے ہے، تعمیر وتجدید کے حوالہ سے بلڈ نگ پرمشن میں تاخیری حربوںاور دفتری گھس گھس (ریڈ ٹیپ ازم) سے ہے، اور سب سے اہم میونسپل کے دائرہ حدود میں جتنے بھی پانی کے ذرائع ہیں جنہیںعام اصطلاح میں واٹر باڈیز کہاجاتا ہے کے قرب وجوار میں کوڈا کرکٹ، گندگی اور غلاظت کے ڈھیر جمع کرکے انہیں ڈمپنگ گرائونڈ کے طور استعمال کرکے ان واٹر باڈیز کو آلودہ اور کشافت کی آماجگاہ بنانے سے روکنے کی سمت میں ٹھوس اقدامات سے ہے۔ واٹر باڈیز کے تعلق سے ابھی ابھی جو تفصیلی تحقیقاتی سروے منظرعام پرآئی ہے وہ پُر تشویش ہے اور میونسپلٹی ایسے ہر عوامی ادارے کیلئے چشم کشا بھی ہیں۔