پاکستان میں مخلوط حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے بات چیت کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا ہے اس کوحاشیہ پر رکھ کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کیاجانا چاہئے۔شریف پہلے بھی گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال کے د وران ایک سے زیادہ مرتبہ تعلقات کو بہتر بنانے اور ہندوستان کے ساتھ بات کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کر چکا ہے البتہ اب کی بار بات کرنے کی جو پیشکش کی اُس کو کسی دو طرفہ اشو کے ساتھ مشروط نہیںکیا ہے۔
دہلی نے شریف کی پیشکش پر کئی روز تک خاموشی اختیار کی البتہ وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ واربریفنگ کے دوران شہباز شریف کی پیشکش یہ کہکر ٹھکرائی کہ ’بھارت پاکستان کے ساتھ ہمسایہ تعلقات کا خواہاں ہے لیکن ایسے تعلقات کیلئے دہشت گردی اور تشدد سے پاک ماحول درکار ہے‘۔
اتفاق ہے یا کچھ اور اسی دوران امریکہ نے دونوں ملکوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ آپسی مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے باہمی مذاکرات کریں کیونکہ امریکہ چاہتاہے کہ خطے کے یہ دو جوہری ممالک آپس میں تعلقات کو بہتر بنائیں۔ البتہ امریکی ترجمان نے اب کی بار یہ پیشکش نہیں کی کہ ان کا ملک دونوں کے درمیان مذاکرات کو ممکن اور نتیجہ خیز بنانے کی سمت میں سہولت کار کا کردار اداکرے گا۔
دہلی نے پاکستان کی مذاکرات کی پیشکش مستر د کرکے محض اپنے نظریہ اور موقف کا ہی اعادہ کیا ہے۔ دہلی بار بار اس موقف کو واضح کرچکی ہے کہ دہشت گرد انہ سرگرمیوں، دراندازی اور سرحد پار سے منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام تک پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا کوئی امکان نہیں کیونکہ جب تک نہ ماحول تشدد اور دہشت گردی سے پاک وصاف ہو اُس وقت تک مذاکرات کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔تاہم اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف جو اب مشکل سے اگلے چند روز تک اس عہدے پر فائز رہینگے نے جب بھی بات کی ضرورت پر زور دیا تو پوری شائستگی اور مہذب انداز بیان اختیار کیا، اپنے پیشرو وزیراعظم عمران خان کی طرح نہیں کہ جو ایک منہ سے ہندوستان کے ساتھ بات کرنے کی حامی بھرتا تھا تو دوسرے منہ سے اپنے خون میں گردش کررہی بداخلاقی، بدزبانی، غیر مہذب انداز، غیر شائستگی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم نریندرمودی کو فاشسٹ اور آر ایس ایس کاآئیڈولاگ قرار دے کر درپردہ اپنے ہمسایہ کے ساتھ رہے سہے تعلقات کو بھی بگاڑ تا رہا۔
اس کے برعکس شریف خاندان اورنریندرمودی کے درمیان ایک تعلق رہا ہے جو باہم عزت وقار پر بنی ہے اپنے باہمی باوقار اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دونوں احتیاط سے کام لے رہے ہیں اور کسی نوعیت کی بدزبانی اور بداخلاقی کو جگہ نہیں دے رہے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بگاڑ کی کئی ایک تاریخی اور زمینی وجوہات موجود ہیں جن سے دونوں کا چھٹکارا فی الحال یافور ی طور سے ممکنات میں نظرنہیں آرہاہے۔
فوری طور سے یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ شہباز شریف نے جو پیشکش کی اور جس پر دہلی نے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اس ردعمل کے پیچھے یہ حقیقت بھی کارفرما ہے کہ شہبازشریف کی عہد مدت اگلے چند روز میں ختم ہونے جارہی ہے جس کے بعد سرحد کے پار کے اُس ملک میں اگلے انتخابات تک ایک نگران سیٹ اپ قائم ہوگا۔ ظاہر ہے کہ نگران سیٹ اپ کے ساتھ معاملات طے پا نہیں سکتے اور نہ ہی ایسے کسی سیٹ اپ کو حساس نوعیت کے معاملات پر فیصلہ سازی کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ ادھر خود وزیراعظم نریندرمودی اپنے اگلے الیکشن کے تعلق سے بتدریج میدان میں اُتر رہے ہیں اور ان کی تمام تر ترجیح اور توانائی اس ایک اور الیکشن کو اپنی کامیابیوں کی جھولی میںسمونے کی طرف مرتکز ہورہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سو چا بھی نہیں جاسکتا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان آپسی تعلقات میں ناچاگی اور مسلسل بگاڑ کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم ترین وجہ یہ ہے کہ سرحد کے آر پار ایک دوسرے کی دُشمن اور اپنے دلوں میں نفرت رکھنے والے بہت سارے معاندانہ انداز فکر اور طرزعمل رکھنے والے عنصر موجود ہیں۔ یہ عنصر سیاست میں بھی ہیں،مذہبی جماعتوں سے بھی وابستہ ہیں، فیصلہ ساز اداروں میں بھی موجود ہیں۔ یہ وہ عنصر ہیں جو ۱۴؍ اور ۱۵؍اگست کی دونوں صبحوں سے ایک دوسرے کے تئیں اپنے اپنے دلوں میں نفرت پال رہے ہیں اور اس نفرت کو اپنی اپنی اگلی نسلوں کو منتقل بھی کرتے جارہے ہیں۔ اعتماد اور بھروسہ کا یہ فقدان دونوں ملکوں اور ان کی کروڑوں کی آبادیوں کو زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالوں سے بلواسطہ اور بلواسطہ نقصان پہنچانے کا موجب بن چکا ہے، چھٹکارا پایا جاسکتاہے لیکن اُسی صورت میں جب تشدد اور نفرت سے پاک وصاف ماحول قائم ہوسکے یا قائم کرنے کی سمت میں دونوں ملک نیک نیتی کامظاہرہ کریں۔آر پار کا میڈیا بھی اپنے اپنے حصے کا کردار اداکررہاہے۔
یہ مخصوص منظرنامہ اب زائد از ۷۵؍ سال سے ہے۔ ہر کشمیری کی یہی خواہش ہے کہ دونوں ہمسایے آپس میں مل بیٹھ کر آپسی تنازعات اور جو کچھ بھی اشوز کی نوعیت ہے ان کا باعزت اور پُر امن حل تلاش کریں۔ یہ منظرنامہ سرحد کے آر پار اختیار کئے جارہے مخصوص بیانیہ کی بُنیاد پر اپنے حق میں نہیں کیاجاسکتاہے کیونکہ یہ بیانیے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے بلکہ ان کا تعلق جذبات ، نظریہ سیاست اور نظریہ ضرورت سے ہے۔ دونوں کو نظریات کے ان خولوں سے خود کو باہر نکالنا پڑے گا۔ اس کیلئے پہل کون کرے، کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ اگر سرحد کے اِس پار یا سرحد کے اُس پار کوئی معمولی سی حرکت محسوس کی جارہی ہے تو یہ عنصر فوراً میدان میں لنگر لنگوٹے کس کر اُتر جاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں سوداگری کا ۔ اس انداز فکر اور طرزعمل کی ایک ادنیٰ سی مثال چند ہفتے قبل اُس قت سامنے آئی جب وزیرخارجہ بلاول بھٹو شنگھائی تعاون کانفرنس میں شرکت کیلئے گوا پہنچ گئے تو عمران خان کے ایک بدزبان ڈھنڈورچی چودھری فواد نے دعویٰ کیا کہ بلاول نے پاکستان کے مفادات کا سودا کرلیا۔ اسی طرح سرحد کے اِس پار بھی کچھ معاندانہ سوچ رکھنے والے عنصر بھی یہی انداز اوررُخ اختیار کرکے ماحول کو مکدر بنانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور اسی ٹوہ میں رہتے ہیں۔