سرینگر//
مرکزی حکومت کی جانب سے کشمیری پنڈتوں اور مغربی پاکستانی مہاجرین (ویسٹ پاکستان ریفوجیز) کو جموں کشمیر کی اسمبلی میں تین سیٹیں مختص رکھنے کے فیصلہ پر یونین ٹریٹری کی سکھ آبادی نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا مطالبہ کیا ہے کہ ان کے کیلئے بھی دو سیٹیں مختص رکھی جائیں۔
سرینگر میں جمعہ کو کشمیر گرودوارا پربندھک کمیٹی(جی پی سی) کے ممبران نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ رواں پارلیمنٹ سیشن میں داخل کی گئی بل کو التوا میں رکھا جائے اور اس بل میں سکھوں کے لئے بھی دو سیٹیں مختص رکھی جائے۔
کمیٹی کے صدر‘ بلدیو سنگھ نے بتایا کہ سکھ آبادی نے بھی کشمیر میں ناسازگار صورتحال کے دوران مصیبتیں جھیلی ہیں، لیکن حکومتوں نے ان کو فراموش کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جس طرح کشمیری پنڈت۱۹۹۰ میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے تھے اسی طرح سکھ آبادی کو گاؤں سے شہر منتقل ہونا پڑا لیکن سرکار نے ان کیلئے کوئی مراعات نہیں دی۔
سنگھ نے مرکزی سرکار سے مطالبہ کیا کہ کشمیری پنڈتوں اور مہاجرین کو تین سیٹیں دینے کے متعلق جو بل پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ہے اس میں سکھ آبادی کے لئے دو سیٹیں مختص رکھی جائیں۔
حدبندی کمیشن نے بھی کشمیری پنڈتوں اور مہاجرین کیلئے اسمبلی میں سیٹیں مختص رکھنے کی سفارش کی تھی، تاہم سکھ آبادی کے گزارشات کے باوجود بھی ان کے لیے کوئی سیٹ مختص نہیں رکھی گئی ہے۔
یاد رہے کہ مرکزی حکومت رواں مانسون سیشن میں جموں کشمیر تنظیم نو قانون۲۰۱۹ میں ترمیمی بل پیش کرے گے۔ اس بل میں دفعہ ۱۴کو ترمیم کرکے ۱۰۷سیٹوں کے بجائے ۱۱۴ درج کیا جائے گا۔بل میں ان تین سیٹوں کو مختص کرنے کے لئے سیکشن۱۵؍اے اور بی شامل کیا جائے گا جن میں ان سیٹوں کی تفصل درج ہوگی۔
کشمیری پنڈتوں کی دو سیٹوں میں ایک خاتون کے لئے مختص ہوگی۔ اس ترمیم سے جموں کشمیر میں اسمبلی سیٹوں کی تعداد۹۰سے۹۵تک پہنچی گی کیونکہ اس سے قبل دو سیٹیں خواتین کے لئے مختص رکھی گئی ہے۔ یہ سلسلہ سابق ریاست کے آئین میں موجود تھا جس کو تنظیم نو قانون میں برقرار رکھا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مغربی پاکستان مہاجرین نے سنہ ۱۹۴۷میں ہندو پاک کے مابین جنگ کے بعد جموں صوبے میں مہاجرین کے طور آئے تھے اور اسی صوبے میں آباد ہوئے۔ ان کی آبادی پچاس ہزار سے زائد ہے اور ان کو سابق ریاست میں اسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا اگرچہ پارلیمنٹ انتخابات میں یہ ووٹ کے اہل تھے۔ تاہم دفعہ ۳۷۰؍اور ۳۵؍اے کی منسوخی کے بعد تنظیم نو قانون کے اطلاق کے بعد ان مہاجرین کو اسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حقوق دیئے گئے جبکہ جموں کشمیر کی شہریت بھی ان کو حاصل ہوئی۔