بدھ, مئی 14, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

دونوں اتحادی آمنے سامنے 

کیا این سی پی ڈی پی اتحاد ممکن ہے؟ 

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2023-07-18
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

وہ زمانہ لُد گیا جب سیاسی اور انتظامی سطح پر ایک پارٹی کی حکومت برسراقتدار آتی اور پھر ہرچار پانچ سال بعد اپنے سیا سی نظریات اور اپنی حکومت کی بہتر کارکردگی کی بُنیاد پر رائے دہندگان سے منڈیٹ پر منڈیٹ حاصل کرکے اپنے اقتدار کو تسلسل عطاکرتی۔
اس کی چند ایک مخصوص وجوہات اور مخصوص تاریخی پس منظر ہواکرتا۔ لوگوں کو غلامی کی زنجیروں سے نئی نئی آزادی حاصل ہوئی تھی،انہوںنے سیاسی قیادت اور سیاسی پارٹیوں سے وابستہ لیڈر وں اور کارکنوں کی آزادی کی جدوجہد میں اپنا سب کچھ نچھاور کرتے دیکھا تھا اور آزادی کے بعد انہیں اس لائق سمجھا کہ یہ نہ صرف اقتدار کے مستحق ہیں بلکہ انکی نیا کو پار لگانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس دوران دوسری چھوٹی بڑی جماعتوں نے بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کیا، نئے نئے سیاسی نظریات اور نئے نعرے پیش کرکے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میںکامیاب رہے، اس طرح سابق حزب اقتدار جماعت اور لیڈر شپ کو نئے چیلنج پیش کئے جاتے رہے، یوں اقتدار کی بندر بانٹ کا آغاز ہوا جو آنے والے کئی سالوں تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ لوگ بھی نئے نئے نظریات کو گلے لگاتے رہے کیونکہ معاشی اور معاشرتی سطح پر ضرورتیں تبدیل ہوتی رہی، ترجیحات کا تعین سرنو کیا جاتا رہا جبکہ سیاست اور سیاسی نظریات کے تعلق سے بھی نئی صف بندی کا آغاز ہوا۔
آج کی تاریخ میں صورتحال یہ ہے کہ ملکی سطح پر کوئی ایک بھی سیاسی جماعت اس بات کا نہ دعویٰ کرسکتی ہے اور نہ اس اہل ہے کہ وہ ملک کی ایک سو چالیس کروڑ آبادی کا منڈیٹ اپنے حق میںمکمل طو رسے حاصل کرسکیں۔ کانگریس ۱۹۴۷ء سے ۲۰۱۴ء تک ملک میں کسی نہ کسی حوالہ سے اقتدار میں رہی لیکن بی جے پی نے اُس کے اِس منڈیٹ میںشگاف لگا کر اپنے لئے اقتدار کی راہیں استوار کرلی۔ بی جے پی پہلے اپنے دم پر پھر اپنے ساتھی اتحادیوں کیساتھ برسراقتدار ہے لیکن اب ایک بار پھر ملکی سطح پر حصول منڈیٹ کے حوالہ سے تبدیلی کی لہریں اُٹھتی محسوس ہورہی ہے۔
حکمران اتحاد اور اپوزیشن دونوں آنے والے ایام میں عوامی منڈیٹ کے حصول کیلئے لنگر لنگوٹے کس کر میدان میں اُتررہی ہیں۔ جہاں ۲۴؍ چھوٹی بڑی پارٹیوں پر اپوزیشن اتحاد کا دو روزہ اجلاس بنگلورو میں جاری ہے وہیں اس کے ایک دن بعد ۳۰؍ چھوٹی بڑی جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد کا اجلاس بھی منعقد ہونے جارہاہے جس کی صدارت خود وزیر اعظم نریندرمودی اور بی جے پی صدر جے پی نڈا کریں گے۔
دونوں اتحادوں کا یہ جم گھٹا اس بات کو واضح کررہاہے کہ اب ہر چھوٹی کوچھوڑ کر بڑی جماعتوں کو اپنی جگہ یہ احساس ہورہا ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر عوام کا دو تہائی منڈیٹ حاصل کرنے کی دوڑ سے باہر ہوچکے ہیں لہٰذا اقتدار کی لیلیٰ کو گلے کا ہار بنانے کیلئے چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو رجھانے کی نہ صرف کوشش کی جارہی ہے بلکہ علاقائی سطح کی جماعتوں کے مفادات اور ترجحات کو بھی اپنے اپنے ایجنڈا اور چنائو منشور کا حصہ بنانے کا راستہ اپنایا جارہا ہے۔
تقریباً ایک سال بعد ۲۰۲۴ء میںملکی سطح پر عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اپوزیشن اور حکمران اتحاد دونوں اپنی اپنی جگہ مسلسل طور سے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ انہیں عوام کا مکمل منڈیٹ حاصل ہوگا، لیکن زمینی سطح پر دعوئوں کے برعکس ہر ایک کیلئے صورتحال مختلف ہے۔ مثلاً فی الوقت حکمران بی جے پی اور اس کے اتحادی ۱۵؍ریاستوں میںبرسراقتدار ہیں،کانگریس۶؍ ریاستوں میں حکمران ہے جبکہ ۹؍ریاستوں میں علاقائی جماعتیں اقتدارمیں ہیں۔ فی الوقت اس زمینی منظرنامہ کی بُنیاد پر کوئی ایک اپنے بل بوتے پر حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجاتا نظرنہیں آرہا ہے۔ نقشے پر نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملک کے جنوب میں حکمران بی جے پی کہیں نظرنہیںآرہی ہے۔ البتہ آنے والے الیکشن پر توجہ اور نگاہیں مرکوز رکھنے اور اہداف حاصل کرنے کیلئے اس کی نگاہ اتر پردیش، بہار، مہاراشٹر اور مغربی بنگال پر خاص طور سے ہے، ان ریاستوں کو نشستوں کی کثرت کے حوالہ سے کچھ برتری حاصل ہے۔ لیکن اپوزیشن اتحاد بھی کچھ خاموش نہیں، وہ ان ریاستوں میں نہ صرف سرگرم ہے بلکہ علاقائی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے راستے تلاش کئے جارہے ہیں۔
اس تناظرمیں جموںوکشمیر کے اندر سیاسی گٹھ جوڑوں پر بھی ایک طائرانہ نگاہ جب بڑتی ہے تو ایک دلچسپ پہلو اُبھر تا محسوس کیاجارہا ہے۔ اپوزیشن اتحاد میں نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور کانگریس شامل ہے۔ اپوزیشن کے سامنے تجویز ہے کہ ہر حلقے میںصرف ایک اُمیدوار جو مشترکہ ہوکھڑا کیا جائے، کشمیر وادی سے فی الوقت نیشنل کانفرنس کو پارلیمنٹ کے تینوں حلقوں میں برتری حاصل ہے جبکہ بی جے پی کو جموں کی دو اور لداخ کی ایک نشست حاصل ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا نیشنل کانفرنس وادی میں کانگریس اور پی ڈی پی کے لئے کسی ایک یا دو حلقوں سے دستبردار ہوگی ؟ اس کا جواب فی الحال مشکل ہے لیکن رجحانات اور انداز فکر اگر کوئی حقیقت یا کسی اہمیت کا حامل ہے تو جواب واضح طور سے نفی میں ہے۔ پھر نیشنل کانفرنس کے اندر بھی قیادت کا ایک اچھا خاصہ حصہ ایسی کسی بھی دستبرداری باالخصوص پی ڈی پی کے حق میں دینے کی مخالفت پر ڈھٹا ہوا ہے۔ پھر کانگریس کے حق میں وادی کے کسی حلقے سے نیشنل کانفرنس کی دستبرداری تو خارج از بحث ہے کیونکہ کشمیرمیں کانگریس کبھی بحیثیت طاقتور جماعت کے اُبھری ہی نہیں اگر چہ وہ مختلف ادوار میں اقتدار میں بحیثیت ایک اتحادی کے شریک رہی ہے۔ البتہ کانگریس کیلئے جموں کا میدان کھلا ہے جہاں کے دو مخصوص حلقوں میں اُسے کشمیر نشین جماعتوں کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔
لیکن لداخ کی واحد نشست کا مستقبل فی الحال موجودہ تناظرمیں ہوا میں لٹکتا محسوس کیا جارہاہے  کیونکہ کرگل اور لیہہ کے کچھ مشترکہ مفادات بھی ہیں اور مطالبات بھی، جن کی تکمیل فی الوقت مرکز کی طرف سے نہیں ہو پارہی ہے۔ مرکز لداخ کی جانب سے ریاستی درجہ دینے کا مطالبہ نہ صرف مستر د کرچکا ہے بلکہ خارج از بحث بھی قرار دیا جارہا ہے۔ اس کے برعکس مرکز کی طرف سے دو نئے ضلعوں نوبرا اور زانسکار کی تشکیل کی پیشکش کی جارہی ہے۔ اس پس منظرمیں کوئی بھی پارٹی اس حلقے سے اپنی کامیابی کی اُمید نہیں رکھ سکتی ۔
بہرحال ہر گذرتے دن کے ساتھ اپوزیشن اور حکمرا ن جماعت کی قیادتوں میں اتحادوں کے جلسے اور نشستیں منعقد ہو تی رہیگی بلکہ ان میں شدت بھی آتی رہیگی۔ ایک دوسرے کی طعنہ زنی ، کردار کشی ، الزامات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دراز سے دراز نہ ہوتا جائیگا، لیکن نتیجہ حتمی طور سے عوام کے ہاتھ میں ہی ہے۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

یہ تخلیقی صلاحیتیں

Next Post

اینڈرسن اولڈ ٹریفرڈ ٹیسٹ کے لئے ٹیم میں لوٹے

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
اینڈرسن کی ہندوستان کے خلاف ٹیسٹ کے لیے انگلینڈ ٹیم میں واپسی

اینڈرسن اولڈ ٹریفرڈ ٹیسٹ کے لئے ٹیم میں لوٹے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.