پاکستان جو اپنی تاریخ کے ابتر ترین معاشی، سیاسی اور آئینی بحران سے جھوج رہا ہے کو اپنی ہمسائیگی میں کچھ نئے مگر حساس نوعیت کے چیلنجوں کاسامنا ہے۔اگر چہ ایران کے ساتھ اس کی سرحد یں خاموش ہیں لیکن وقفے وقفے سے سرحد کے آر پار حملوں، فائرنگ اور خون خرابے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جبکہ افغانستان ، جہاں طالبان حکمران ہیں کے ساتھ اس کے تعلقات ہر گذرتے دن کے ساتھ بگڑتے جارہے ہیں۔
ان تعلقات میں بگاڑ افغانستان کی جانب سے پاکستان کی سرحدوں کے اندر مسلسل ہلاکت خیز حملوں، افغانستان کے اندر پاکستان طالبان کی پناہ گاہوں اور طالبان قیادت کی جانب سے ان کی سرپرستی اور معاونت کرنے اور خود پاکستان کے اندر افغان پناہ گزینوں کے گروپوں کی طرف سے بھتہ خوری اور دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہونے کی بُنیادی وجہ بتائی جارہی ہے۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات بگڑ جانے پر واقعی حیرت ہے۔ اس لئے کہ افغانستان پر سُرخ آندھی کی چڑھائی کے ساتھ ہی زاہد از چالیس لاکھ افغان باشندے بے سروسامانی کی حالت میں پاکستان میں خیمہ زن ہوئے، اپنے محدود وسائل کے باوجود پاکستان نے انہیں پناہ دی، خوراک ، پانی ، بجلی ، بچوں کی تعلیم اور چھت فراہم کی ، بے شک اقوام متحدہ ، امریکہ ، اس کے اتحادی ممالک سمیت دُنیا کے کئی ایک ممالک نے پناہ گزینوں کی امداد کیلئے دل کھول کر مالی امداد فراہم کی۔ زائد از چالیس سال گذرنے کے باوجود افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی آبادی ہنوزپاکستان کے مختلف حصوں میں رہائش پذیر ہوکر اب پاکستانی معاشرے کا حصہ بن چکی ہے لیکن اس آبادی کی صف میں بہت سارے گروپ دہشت گردانہ کارروائیوں ، بھتہ خوری، ڈاکہ زنی، راہ زنی، بلیک میلنگ ، چوری ، اغوا اور عصمت دری کے ساتھ ساتھ ہلاکت خیزی میں ملوث ہیں۔
یہ افغانیوں کی احسان فرموشی کی ایک ایسی داستان ہے جس کی نظیر دُنیا میں او رکہیں نہیں ملتی۔ غالباً یہ احسان فرموشی افغانیوں کی فطرت ثانی ہے۔ یہ لوگ اپنے محسن پاکستان کا وفا نہیں کرپارہے ہیں تو دُنیا کے دوسرے ممالک بشمول ہندوستان اور چین جوا ن کی ہر ممکن ترقی اور راحت رسانی کے لئے دل کھول کر امداد فراہم کررہے ہیں کا احسان کب تسلیم کریں گے؟
دوحہ میں کثیر الملکی مذاکرات کے دوران افغان طالبان نے اور باتوں کے علاوہ یہ یقین دہانی بھی دی تھی کہ برسراقتدار آنے پر وہ افغان سرزمین پر نہ دہشت گردی کو برداشت کریں گے اور نہ ہی افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردوں کو بطور لانچنگ پیڈ استعمال کرنے کی اجازت دیں گے۔ عوام کے جمہوری اور سیاسی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ لیکن طالبان اپنی ان یقین دہانیوں پر قائم نہیں رہ سکے۔ نہ صرف پاکستان طالبان بلکہ داعش اور دیگر غیر ملکی دہشت گرد گروپوں کو بھی مکمل پناہ دی جارہی ہے۔
اب تک اس بارے میں پاکستان کی سویلین حکومت اور پاکستان کی آرمی قیادت دبی دبی زبان اور لہجہ میں ہی بات کرتی رہی لیکن اب جبکہ خود پاکستان کے مختلف حصوں میں طالبان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ کا رجحان ریکارڈ کیاجارہاہے پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کھل کر سامنے آئے اور واضح کیا کہ ’’افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر (پاکستان کی) مسلح افواج کو تحفظات ہیں،کالعدم طالبان پاکستان کو افغانستان میں کھلی آزادی ہے، اُمید تھی کہ افغانی اپنی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے، پاکستان کے اندر افغان شہریوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے پر بھی تشویش ہے جبکہ ژوب جیسے ہلاکت خیز واقعات (پاکستان کیلئے ) ناقابل برداشت ہیں‘‘ ۔ جنرل نے انتباہ دیا کہ ’’دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بلا امتیاز جاری رہے گا‘‘۔
جنرل کے اس دوٹوک اور واضح بیان سے یہ مترشح ہوجاتا ہے کہ پاکستان طالبان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا دائرہ نہ صرف وسیع ہوتا جارہا ہے بلکہ پاکستان بحیثیت سٹیٹ کے خلاف طالبان کا پلڑا بھی بھاری ہوتا جارہا ہے ۔ پاکستان کی سول سوسائٹی اور سنجیدہ حلقے اس دہشت کیلئے سابق حکمرانوں جس کی قیادت عمران خان کرتے رہے اور سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل فیض حمید کو یہ کہکر ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں کہ انہوںنے ہی افغانستان میں پناہ گزین چالیس ہزار پاکستان مسلح طالبان کو واپس بلالیا اور محفوظ راہداری فراہم کی بلکہ ان کے نیٹ ورک کیلئے زائد از تیس بلین روپے کا سرمایہ بھی وقف کیا ۔
پاکستان کی سرحدوں کے اندر پاکستانی طالبان اور دوسرے غیر ملکی دہشت گردگروپوں کی بڑھتی تعداد اور قوت پاکستان کی ہمسائیگی میں ملکوں باالخصوص ہندوستان کیلئے بھی باعث تشویش ہے ۔ کشمیرکی سرزمین باالخصوص متاثر ہوسکتی ہے ۔ماضی قریب میں بھی افغان مسلح دہشت گرد وں کی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے دوران ہلاکتوں کے کئی معاملات ریکارڈ پر موجود ہیں کیونکہ کشمیر بھی ان گروپوں کے مخصوص طور سے نشانے پر رہا ہے۔
کشمیر کی تاریخ کشمیراور افغانستان کے درمیان تعلقات کے حوالہ سے بھری ہے۔ افغانی کشمیر پر حکمران رہے ہیں اور اپنے دور استبداد کے دوران انہوںنے وہ کون ساغضب اور ظلم نہیں ہے جو کشمیر یوں پر نہ ڈھایا ہو اور جن کے حوالہ کشمیرکی تاریخ میںرقم نہیں۔ افغان گورنر کا کرخان کی درندگی اور وحشیانہ پن کشمیر کی تاریخ کاحصہ ہے۔
طالبان چاہئے افغانی ہوں یا پاکستانی یادُنیا کے کسی دوسرے حصے میں کسی اور نام کے تحت ہوں ان کا چہرہ ایک جیسا ہے ۔ یہ اسلام کے نام پر دہشت پھیلا رہے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کے لئے جذباتی سہارے حاصل کررہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور نہ اسلام زمین پر فساد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ افغان طالبان کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں یہی وجہ ہے کہ دُنیا کے کسی ملک نے ان کی افغان حکومت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔
ہندوستان نے بھی اگر چہ افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن افغانیوں کی بھرپور امداد کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ امداد سکالر شپ، پیشہ ورانہ اور تکنیکی اداروں میں تربیت، افغانستان کے ادارتی ڈھانچہ کی تعمیر نو اور دوسرے ترقیاتی منصوبوں سے وابستہ ہے۔ لیکن افغان طالبان اس ساری راحت کو حلق سے نیچے اُتارتے تو رہیں گے لیکن دہلی کا وفا نہیں کریں گے کیونکہ وفا افغانیوں کی فطرت نہیں!