اگلے چار پانچ روز میں جموںوکشمیر سے تعلق حاجیوں کی واپسی شروع ہوگی۔ یہ ممکن نہیں کہ سفر کے دوران تکلیف کاسامنا نہ ہو، ہر سفر چاہئے وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، کے راستے پر گامزن جو کوئی بھی ہو یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ اُس کا سفر دشواریوں اور تکا لیف سے مُبرا ہوگا، تکالیف اور مشکلات ہر سفر کا لازمی جز ہے۔ اس تعلق سے حاجی مستثنیٰ نہیں ہوسکتے ہیں۔
لیکن کچھ بُنیادی سوال ہیں جو توجہ طلب ہیں۔ اس سال ایام حج کے دوران اب تک کئی بار مکہ مکرمہ اور مدینتہ المنورہ میں اپنے مختصر قیام کے دوران بیشتر حاجیوں جن کا تعلق جموں وکشمیرکے علاوہ ملک کے مختلف حصوں سے رہا ہے۔مسلسل یہ شکایت کرتے رہے کہ قیام وطعام کے حوالہ سے حج کمیٹی آف انڈیا نے خاطر خواہ اور حسب اعلانات اور یقین دہانیوں کے انتظامات نہیں کئے جن کے نتیجہ میں حاجیوں کو گونا گوں مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
کشمیر کے تعلق سے حاجیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے مدینہ المنورہ سے اپنے قیام کے حوالہ سے یہ شکوہ کیا کہ ان کے قیام کیلئے جس رہائش کا اہتمام کیاگیا اُس میں ذرہ بھر بھی سہولیات میسر نہیں تھی۔ ایک چھوٹے سے کمرہ میں کم سے کم چھ حاجیوں کو ٹھہرا یا گیا، حفظان صحت کا کوئی بندوبست نہیں تھا، رفع حاجت کی سہولیات کا فقدان تھا، خواتین کو باالخصوص کئی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑا، جبکہ رہائش کا انتظام مدینہ سے کئی کئی کلومیٹر دور کیاگیا۔ حاجیوں نے سوال کیا ہے کہ جموںوکشمیر کی حج کمیٹی اور اس کی سرپرست ملکی سطح کی حج کمیٹی کا رول اور کردار حد درجہ نہ صرف افسوسناک رہا بلکہ انتہائی مایوس کن بھی تھا۔ کوئی ان کی دادرسی کیلئے دستیاب نہیں تھا، نہ وہ جنہیں جموں وکشمیر حج کمیٹی نے اپنا منظور نظر اور لاڈلہ تصور کرکے بحیثیت خدام اور بحیثیت نوڈل آفیسران کے روانہ کیا تھا اور نہ کوئی طبی سہولیات دستیاب تھی۔
اگر حاجیوں کی یہ شکایت واقعی سچ پر مبنی ہے تو پہلی ذمہ داری کا بوجھ جموںوکشمیر حج کمیٹی کی خاتون چیئرپرسن ، حج آفیسر اور دوسرے ماتحت ارکان کے کاندھوں پر ہے، کیا حکومت نے ان سارے عہدیداروں کا انتخاب اور تقرری عیاشیوں اور مراعات بٹورنے کیلئے کیا ہے یا حاجیوں کے سفر کو آسان بنانے، ایام حج کے دوران حاجیوں کو تما م طرح کی سہولیات بشمول سفری اور طبی نگہداشت کو یقینی بنانے کی غرض سے کیا ہے، اگر یہ سارے اپنے فرائض کی انجام دہی کی سمت میں شرمناک اور مایوس کن حد تک ناکام رہے ہیں تو ان کا انجام بھی اُسی مناسبت سے ہونا چاہئے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر مرکزی حج کمیٹی ہر حاجی سے اوسطاً پانچ لاکھ روپے تک وصول کررہی ہے تو سہولیات کا فقدان کیوں؟ ان پانچ لاکھ روپے میں سے حج کمیٹی اپنی نام نہاد خدمات کیلئے کتنی رقم اپنی تجوری کی زینت بنارہی ہے۔ پندرہ …بیس روز کی مدت کے عمرہ کی ادائیگی کا اوسط خرچہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے تو ۴۰؍روزہ ایام حج کا خرچہ پانچ لاکھ کیوں؟ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ جموںوکشمیر کی حج کمیٹی اپنی سرپرست ملکی سطح کی حج کمیٹی کی قیادت میں حاجیوں سے زیادہ وصولی کی مرتکب ہورہی ہے جو ناجائز لوٹ اور جذبات کے استحصال کے زمرے میں تصور کیا جاسکتاہے۔
جموں وکشمیر حج کمیٹی کے منتظمین دس بارہ ہزار ریاستی حاجیوں کے لئے آرام دہ سفری سہولیات اور قیام وطعام کے حوالہ سے مناسب اور اطمینان بخش انتظام نہیں کرپارہی ہے جبکہ شری امر ناتھ یاتر اکے دوران شرائن بورڈ اور جموںوکشمیر انتظامیہ سے وابستہ ہر متعلقہ شعبہ مناسب ہی نہیں بلکہ فقید المثال انتظامات کرکے اپنی صلاحیتوں اور اہلیت کی دھاک بٹھارہا ہے لیکن ریاستی حج کمیٹی محض ۱۲؍ہزار حاجیوں کیلئے مناسب انتظامات کرنے میں شرمناک حد تک ناکام نظرآرہی ہے۔ اس کمیٹی کا ناجائز استحصال اور عیاشیوں سے عبارت اپروچ کی ابتداء ہر حاجی سے حج ہائوس سے ائیر پورٹ تک ۹؍ سو روپے بس کرایہ کی جبراً وصولی سے ہوئی اور اختتام مکہ اور مدینہ میں حاجیوں کیلئے ناقص رہائشی انتظامات اور حفظان صحت کے تعلق سے مایوس کن اور منفی طرزعمل پر ہوئی۔
اس تناظرمیں ریاستی حج کمیٹی کے تمام ذمہ داروں بشمول اس کی چیئرپرسن کو یاتو خود حکومت برطرف کردے یا اگرا ن میں ضمیر اور اخلاقیات کی کوئی باقیات رہ گئی ہے تو از خود مستعفی ہو کر اپنے گناہوں اور مجرمانہ اپروچ پر اپنے اپنے گھروں کے اندر تائب رہیں۔آئندہ حاجیوں کو کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے ہمارا مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ حج کمیٹی کو تحلیل کردیا جائے اور حاجیوں کیلئے تمام انتظامات وقف بورڈ کے سپرد کردیئے جائیں۔
اس کے باوجود اگر حکومت سمجھتی ہے کہ حج کمیٹی ہی انتظامات کی اہل ہے تو دوسرا مشورہ یہی ہے کہ اس کے منتظمین کو شری امر ناتھ شرائن بورڈ اور ویشنودیوی شرائن بورڈ کے پاس ڈیپوٹیشن پر روانہ کیا کریں تاکہ یہ دونوں بورڈوں سے انتظام وانصرام کے تعلق سے تربیت حاصل کرکے خود کو اہل ثابت کرسکیں۔ ورنہ ہر سال حاجیوں اور ان کیلئے انتظامات کے تعلق سے اسی طرز کی نااہلیت ، مایوس کن اور شرمناک کا رکردگی کا مظاہرہ سامنے آتا رہے گا۔
حاجیوں کو مکہ اور مدینہ میں جن پر یشانیوں اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ریاسی حج کمیٹی کیلئے حکومت کے نامزد حج آفیسر کا کردار بھی شکوک کے دائرہ میں آیا ہے۔ حج آفیسر کی ذمہ دار یاں کیا ہیں اور کیا نہیں،ا س کے برعکس حاجیوں نے جب شکایت کی اور حج آفیسر نے اُس پر جو جواب یا ردعمل دیا کیا وہ اخلاق، شائستگی اور ذمہ دارانہ طرز اسلوب سے عبارت تصور کیا جاسکتا ہے؟ وہ تحکمانہ اور تانا شاہی ذہنیت سے ہی عبارت قرار دیا جاسکتاہے۔
لیفٹنٹ گورنر منوج سہنا جو جموںوکشمیر کے متعدد انتظامی اور خودمختار شعبوں کی ذمہ داریوں اور فرائض کی انجام آوری کی سمت میں اصلاحات اور سدھار کے ہر اول دستہ کے قائد سمجھے جارہے ہیں سے عوامی حلقے یہ توقع رکھ رہے ہیں کہ وہ جموںوکشمیر سے ہر سال سفر حج پر جانے والے حاجیوں کی سفری سہولیات ، رہائش ، قیام وطعام وطبی نگہداشت کو راحت بخش اور تمام تر دقتوں سے صاف وپاک بنانے کیلئے بھی توجہ مرکوز کریں گے تاکہ ذمہ دار افراد جنہیں حکومت حج کمیٹی کے مختلف عہدوں کیلئے نامزد کرتی ہے یا جن کاتعلق خودانتظامیہ سے ہے کو یہ احساس ہوجائے کہ ان کاانتخاب عیاشیوں اور مراعات کے حصول کیلئے نہیں بلکہ ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔