سویڈن میں ایک مسجد کے باہر عراقی نژاد ایک جنون پرست شہری نے قرآن پاک کا نسخہ پھاڑ ڈالا، اس کو نذر آتش کردیا اور بے حرمتی کرکے اپنے جنون کی پیاس تو ٹھنڈی کردی لیکن عالمی سطح پر مسلمانوں کی دل آزاری بھی کی اور ایک نئی اشتعال انگیزی کو بھی جنم دیا۔ واقعہ کے کئی روز بعد اگر چہ سویڈن کی حکومت نے مذمت کی لیکن یہ مذمت فرد کی اظہار رائے کی آزادی سے یہ کہکر مشروط کردی کہ حکومت کی یہ پالیسی نہیں کہ وہ کسی مذہبی فرقے کی دل آزاری کرے لیکن فرد کی اظہار آزادی پر پابندی بھی نہیں لگائی جاسکتی۔
مسلمان ممالک کی تنظیم نے سعودی عربیہ میں ہنگامی اجلاس طلب کرلیا جس میں اس واقعہ کی مذمت کی گئی اور مسلمان ممالک پر زور دیاگیا کہ وہ مستقبل میںایسے دل آزار واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ مسلم ممالک کی تنظیم کا اس نوعیت کے دل آزار معاملات کے تئیں عموماً ایسا ہی غیر سنجیدہ ردعمل رہا ہے اور اس کی بے عملی نے ڈیڑھ سو کروڑ مسلم آبادی کو نراش کررکھا ہے۔ اسلامی تنظیم سے کہیں زیادہ سنجیدہ ردعمل اور سخت لہجہ میں مذمتی بیان یوروپی یونین کی جانب سے سامنے آیا ہے جو مسلم ممالک کی اس بے عمل آرگنائزیشن کیلئے چشم کشا ہونا چاہئے۔
اسلاموفوبیا آج کی بیماری نہیں بلکہ یہ بیماری ایک عرصہ سے جنون پرستوں ، نظریہ بالادستی کے حامل لوگوں اور فکری دہشت گردی کو لاحق ہے جو موقعہ ملتے ہی اس کا اظہار کرتے ہیں یا مختلف طریقوں سے اس کو اپنی زبان دے رہے ہیں۔البتہ یہ بیماری اب کینسر کی طرح پھیلتی جارہی ہے اور وہ ممالک جن کے بارے میں یہ گمان رہا ہے کہ وہ روادار ہیں، دوسرے عقیدوں اور مذاہب کا احترام کرتے رہے ہیں کی اب آہستہ آستہ اس مرض بلکہ کینسر میںمبتلا ہوتے جارہے ہیں۔
اس حوالہ سے ایک حالیہ سروے رپورٹ منظرعام پر آئی ہے، یہ سروے رپورٹ پر تگال کے ایک روزنامہ Hoje Macauنامی اخبار نے پاپل چیئریٹی کی وساطت سے شائع کی ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دُنیا کے ۱۹۶؍ممالک میں مذہبی آزادی کے حوالہ سے سروے کی گئی، ان میں سے ۶۱؍ ممالک ایسے اُبھر کر سامنے آئے جن ممالک میںمذہبی آزادی چھین لی جارہی ہے،جزوی یاکلی طور سے سلب کی جارہی ہے یا دوسرے دل آزار حربے بروئے کا ر لائے جارہے ہیں ۔ ان ۶۱؍ ممالک میں سے اکثریت کا تعلق ایشیاء سے ہے۔جن ممالک کی خاص طور سے نشاندہی کی گئی ہے ان میں چین ، ہندوستان ، نیپال، نارتھ کوریا ، ویتنام ،میانمار ،ملیشیا ،انڈونیشیا، عراق ،ایران ، پاکستان ، سری لنکا ،تھائی لینڈ، ہسپانیہ شامل ہیں۔مذکورہ اخبار نے یہ سروے رپورٹ اپنی ۲۵؍ جون کی اشاعت میں اس دعویٰ کے ساتھ شائع کی ہے کہ یہ سروے جنوری ۲۰۲۱ء سے حالیہ ایام تک کی مدت کے دوران کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان ممالک میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بناکر ان کی مذہبی آزادی چھین لی جارہی ہے۔ اقلیتوں سے مراد جہاں مسلمان اقلیت میں ہے وہاں مسلمان اور ان کی عبادت گاہیں نشانے پر ہیں، جہاں عیسائی اقلیت میں ہیں وہاں عیسائیوں کی آبادی اور ان کے چرچ جبکہ جہاں ہندو اقلیت میں ہیں وہاں ہندو نشانے پر ہیں۔ چین کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں دعویٰ کیاگیاہے کہ اویغورمسلم آبادی کو کچلنے ، ان کی مذہبی شناخت ختم کرنے اور مساجد وغیرہ کو منہدم کرنے کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ جاری ہے۔ مسلمانوں پر کڑی نگاہ رکھنے کیلئے ملک بھرمیں ۵۴۰ ملین سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں۔ ان کیمروں کی مدد سے مسلمانوں کی پروفائلنگ کی جارہی ہے اور جو بھی چینی نظام کی خلاف ورزی کرتا پکڑا جاتا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔
جن ممالک میں مسلمان اقلیت اور ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بناکر ان کی مذہبی آزادی سلب کی جارہی ہے ان میں چین جہاں سرفہرست ہے وہیں ہندوستان، نیپال ،سری لنکا ، میانمار، خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔سری لنکا میں بدھسٹ قوم پرست مومنٹ نے ملک کی مسلم، ہندو اور عیسائی اقلیتوں کو نشانہ پر لے رکھاہے جبکہ میانمار کی فوجی بدھسٹ آمریت روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کرتی جارہی ہے۔ تھائی لینڈ میں عیسائی نشانے پر ہیں جہاں اب تک ۱۳۲؍ چرچ تباہ کئے جاچکے ہیں۔ نیپال کے بارے میں رپورٹ میںکہاگیا ہے کہ اُس ملک کا حکمران طبقہ ہندوستان کی دیکھا دیکھی میں ویسے ہی قوانین وضع کرتا جارہا ہے جو ہندوستان اب تک وضع کرچکاہے یا کررہاہے۔ رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں کہاگیا ہے کہ اُس ملک میں ہندو اور عیسائی اقلیتوں کو نشانہ بنا کر ان کی مذہبی آزادی سلب کی جارہی ہے۔ رپورٹ میں باقی ۱۳۵؍ملکوں کے بارے میں کوئی تفصیل شامل نہیں ہے۔
وثوق سے کہا نہیں جاسکتا کہ پرتگالی روزنامہ نے جویہ سروے رپورٹ شائع کی ہے اور جو نتائج اخذ کرکے مرتب کئے ہیں وہ کس کسوٹی یا بُنیاد پر مرتب کئے گئے ہیں۔ جس ادارے نے سروے کرائی ہے وہ کس حد تک خود مستند اور روادار ہے اور کس حد تک اس کی اس سروے رپورٹ پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ البتہ کچھ زمینی حقائق سامنے ہیں جن کی بُنیاد پر کہاجاسکتاہے کہ سروے رپورٹ میں درج معاملات اختراعی بھی نہیں ہیں۔
اس رپورٹ کے تناظرمیں اب یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ دُنیا کے گردوپیش میں معاملات صرف یا مخصوص اسلاموفوبیا سے ہی وابستہ نہیں بلکہ دوسرے مذہبی عقیدوں کے خلاف بھی جذبات اُبھررہے ہیں یا اُبھارے جارہے ہیں۔سلسلہ یونہی چلتا رہا تو نہ جانے آنے والے کل مذہبی بالادستی، نظریہ بالادستی، جنون پرستی یا عقیدوں سے وابستگی کو لے کر حالات اور معاملات کیا رُخ اختیار کرجائیں گے، ان کا تصور ہی رونگٹے کھڑا کردیتا ہے۔
اس فوبیا کے بطن سے اُبھر رہے سنگین نوعیت کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے، کون پہل کرے گا یا کس کو پہل کرنی چاہئے، یہ بہت بڑا سوال ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل سے کوئی اُمید وابستہ کرنا احمقانہ ہے کیونکہ یہ عالمی ادارہ چند بڑی طاقتوں کی لونڈی اور رکھیل بن چکا ہے۔ یوروپی یونین سے کچھ اُمیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں البتہ اسلامی ممالک کی تنظیم ، جو تقریباً ۶۰؍ مسلم ممالک کی رکنیت پر مشتمل ہے سے بھی کوئی خاص توقع نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ اس تنظیم پر سعودی حکومت کا مکمل قبضہ ہے جبکہ رکن ممالک اس کی خواہشوں بلکہ ڈکٹیشن کے آگے عموماً سرخم کرتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ پھر کیا خود متعلقہ ممالک کو اپنے طور سے پہل کرنی چاہے لیکن اس کے آگے بھی یہ سوالیہ ہے کہ کیا انفرادی سطح پر یہ ممالک اپنے نظریاتی اور عقیدوں کے ساتھ ساتھ بالادستی کے جنون سے دامن چھڑانے کیلئے تیار ہیں؟