نئی دہلی// حج کمیٹی آف انڈیا کے سابق ممبر حافظ نوشاد احمد اعظمی نے آج اخبارات میں شائع مرکزی وزیراقلیتی امور محترمہ اسمرتی ایرانی کے بیان عدم اتفاق ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ان کا دعویٰ پوری طرح بے بنیا د اور غلط ثابت ہوا بلکہ اس کے لیے انھوں نے کوئی بھی سنجیدہ عمل نہیں کیا۔
انہوں نے آج یہاں جاری ریلیز میں کہاکہ وہ دعوی کررہی ہیں مکہ اور مدینہ میں عازمین حج کی مشکلات کا ازالہ کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر موصوفہ نے جولائی 2022 سے حج کا اضافی چارج سنبھالا ہے اور اس سلسلے میں نومبر 2022 سے انھوں نے ملک کے میڈیاکے سامنے دوتین بار جو بھی دعوے کیے ہیں جیسے حج بدعنوانی سے پاک شفافیت کے ساتھ اور سستا کیاجائے گا۔وہ صحیح ثابت نہیں ہوا۔
مسٹر اعظمی نے ثبوت کے طور پر کہاکہ شفافیت کے بارے میں وزیر موصوفہ کو ملک کی عوام کو بتانا چاہیے کہ حج کمیٹی جوبھی آدھی ادھوری ہے اس حج سیزن میں اس کی کتنی میٹنگ ہوئی ہے اور اس کی کارروائی حج کمیٹی آف انڈیا کی ویب سائٹ پر کیوں نہیں ڈالی گئی ۔دوسرا حاجیوں کے حج فارم میں تقریباً چار مہینہ کی تاخیر کیوں کی گئی ۔تیسرا امبارگیشن پوائنٹ میں متبادل دے کر عازمین کو کنفیوزن میں ڈالا گیا اور چھوٹے امبارگیشن پوائنٹ میں کم تعداد کی وجہ سے بھی کرایہ میں بے تحاشا اضافہ ہوا ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے 2018 کی طرز پر امبارگیشن پوائنٹ ضلع وائز بٹوارے کی وکالت کی تھی جسے مسترد کردیاگیا۔
مسٹر اعظمی نے الزام لگایا کہ حج سستا کرنے کا دعویٰ بالکل ہی غلط طریقے سے کیا گیا اور ایئر لائنسوں کے پاس اگر آپ چار ماہ پہلے جاتے تو آپ کا ریٹ ملتا اور اس قدر کرایہ میں اضافہ قطعا نہیں ہوتا انھوں نے کہا کہ وزیر موصوفہ اور ان کی وزارت کے ذمہ داران اس ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے کیوں کہ نوڈل ایجنسی اقلیتی فلاح وبہبود ہے انھوں نے کہا کہ یہ تعجب خیز ہے کہ ممبئی سے سعودی ایئر لائنس 53 ہزار فی حاجی کرایہ لے رہی ہے وہیں دہلی سے 93 ہزار ہے اور وہی سعودی ایئر لائنس لکھنو سے 1 لاکھ 8 ہزار کرایہ لے رہی ہے کس طرح یہ سمجھا جائے کہ حج سستا کرنے کے لیے وزارت نے سنجیدگی دکھائی ہے ۔
مسٹر اعظمی نے کہا کہ سفر حج ایک غیرممالک کا سفر ہے پریشانیاں ہمیشہ ہوئی ہیں لیکن بد انتظامی اور حج مہنگا ہونے میں سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں انھوں نے کہا پہلے 150 عازمین کے لیے ایک خادم الحجاج خدمت کے لیے جاتے تھے اس لحاظ سے اس سال 920 خادم الحجاج کو جانا چاہیے تھا مگر امسال اب تک صرف 320 خادم الحجاج جو 374حاجیوں پر ایک ہورہے ہیں کچھ بھیجے گئے ہیں کچھ جانا باقی ہیں اب یہ تعداد کم کرکے سعودی عرب میں حاجیوں کی دیکھ بھال ان کی خدمت اور ان کی ضروریات کیسے پوری ہوسکتی ہے ۔
واضح رہے کہ خادم الحجاج بھیجنے کا خرچ 50 فیصد مرکزی حج کمیٹی اور 50 فیصد اسٹیٹ حج کمیٹی برداشت کرتی ہے جب یہ تعداد کم کردی گئی ہے تو حاجیوں کو پریشانی ہونا لازم ہے اور اس کا ازالہ ایک افسر کوبھیج کر نہیں کیا جاسکتا۔
مسٹر اعظمی نے کہا کہ مرکزی حکومت کے ذمہ دیکھ بھال ہے پیسہ سب حاجیوں کا ہے اور قدیمی روایت کو ختم کرکے عازمین حج کے لیے بہتر نظام قائم نہیں کیا جا سکتا ۔انہوں نے کہا کہ ریال حج کمیٹی کے ذریعہ نہ دیئے جانے کابھی فیصلہ بہت غلط تھا عازمین کا پیسہ حج کمیٹی آف انڈیا 2100 ریال واپس کرتی تھی اس نظام کو بھی ختم کرکے ملک بھر کے عازمین کو ذہنی جسمانی اور مالی طور پر پریشان ہونا پڑا وہاں سے جو ویڈیو آرہے ہیں بہت مجبور اور پریشانی میں حاجی اپنے رفقا کو بھیج رہے ہیں اس کے لیے یہ کہنا کہ ملک کوبد نام کرنے کے لیے حاجی ایسا کررہے ہیں یہ قطعی طور سے بے بنیاد بات ہے کیوں کہ برسوں کی تمناؤں کے بعد تمام طرح کی پریشانیاں اور پیسہ خرچ کرنے کے بعد وہاں پہنچ رہے رہیں تو وہ اپنا ایک ایک منٹ عبادت میں صرف کرنا چاہتے ہیں۔