۱۹۴۷ء تک جموں وکشمیر ایک وسیع وعریض متحدہ ریاست تھی۔ جموںوکشمیر کو ایک متحدہ ریاست کے طور تشکیل دینے میں جموں کے ڈوگرہ خاندان کا اہم ترین کردار رہا۔ یہ ریاست مادھو پور سے لے کر گلگت بلتستان تک پھیلی تھی۔ لیکن برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی اس ریاست کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی جس ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ ابھی جاری ہے بلکہ کچھ حلقوں کی مسلسل کوشش اور خواہش ہے کہ بچی کھچی ریاست جوا ب صرف کشمیر وادی اور جموں پر مشتمل ہے کے بھی دو حصے کرکے اس کی سالمیت اور وحدت کو ان علیحدگی پسند ، علاقہ پرست اور جنون پرستوں کی سازشوں کی بھینٹ چڑھادیاجائے۔
جموںوکشمیر کے ایک وسیع وعریض علاقے پر چین قابض ہے۔ گلگت اور بلتستان پر پاکستان کا قبضہ ہے ۔ کنٹرول لائن کے اُس پارخطے کو ’’آزاد کشمیر‘‘ کا نام دے کر پاکستان ۱۹۴۷ء میں ہی اپنے ناجائز قبضے میں لے چکا ہے۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جموںوکشمیر اور لداخ پر مشتمل ریاست کو مزید دو حصوں میں تقسیم کرکے لداخ اور کرگل پر مشتمل مخصوص خطے کو لداخ یوٹی میںتبدیل کردیاگیا۔ اور اب باقی کشمیر اور جموں پر مشتمل یوٹی کو جموں نشین کچھ علاقہ پرست، فرقہ پرست اور ازلی کشمیر دُشمنی میں اپنا کوئی ثانی اور نظیر نہ رکھنے والے کچھ عنصر جن کی قیادت لال سنگھ کررہا ہے جموں کو کشمیر سے توڑ کر جموں پر مشتمل ایک علیحدہ ریاست کی تشکیل چاہتا ہے۔
چودھری لال سنگھ کا نگریس سے وابستہ رہے ہیں پھر بی جے پی میں شامل ہوئے، پی ڈی پی کی قیادت میں بی جے پی پر مشتمل مخلوط حکومت میں وزارتی عہدے پر فائد رہے جس دوران ان کے آبائی ضلع کٹھوعہ کے رسانہ علاقے میں ایک ۸؍سالہ معصوم کمسن بچی کو اغوا کیاگیا، پھرا س کی اجتماعی عصمت دری کی جاتی رہی اور پھر سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معصوم کو قتل کردیاگیا ۔ کئی افراد حراست میں لئے گئے، پولیس کی خصوصی ٹیم نے گہرائی سے تحقیقات کرکے اصل مجرموں پر ہاتھ ڈالدیا جوبعد میں عدالتی سماعت کے دوران ان کی جیل کی سزائوں پر منتج ہوا۔
لیکن مجرموں کی گرفتاری اور ان کی جیل کی سزائیں چودھری لال سنگھ سے برادشت نہیں ہوئی، اپنے کچھ ہم خیال ساتھیوں بشمول کچھ وکلاء کو ساتھ لے کر مجرموں کے حق میں ریلیاں منعقد کی، اور بھر پور کوشش کی کہ پکڑے گئے قاتلوں اور اغوا کاروں کو بے گناہ اور معصوم قرار دیاجائے لیکن پولیس ڈت گئی، سو ل سوسائٹی جموں ڈٹ گئی اور بی جے پی کی قیادت کو بھی معاملہ کی سنگینی کا احساس ہوا اور اس نے لال سنگھ کو نہ صرف وزارتی عہدے سے برطرف کردیا بلکہ پارٹی سے بھی باہر کردیا ۔ تب سے برابر لال سنگھ فرقہ پرستی، علاقہ پرستی اور کشمیر دُشمنی پر مبنی اپنی فاشسٹ سیاست کی دُکان سجاتے چلے آرہے ہیں اور وقفے وقفے سے جموں کوعلیحدہ کرکے اس پر مشتمل ایک علیحدہ ریاست کی تشکیل کاخواب دیکھ رہاہے۔
اس ذہنیت کے لوگوں کاشمار غدار وطن کی فہرست میں ہوتا ہے۔ ایسے عنصر کے ساتھ ملکی قوانین کے تحت بالکل اُسی انداز اور طریقے سے نمٹا جاتا ہے جس طرح جموںوکشمیر میںدوسرے علیحدگی پسندوں سے نمٹا گیا اور نمٹنے کا جو سلسلہ برابر جاری ہے۔ لال سنگھ کے نظریے اور مطالبے میںاگر کوئی منطق ہوتی، دلیل ہوتی، مخصوص نظریہ ہوتا، تو اُس کے اس مخصوص مطالبے کی جوازیت کو سمجھنے میں آسانی ہوتی لیکن اس مطالبے میںنہ کوئی منطق ہے اور نہ کوئی دلیل بلکہ جموں وکشمیر کی وحدت اور سالمیت کو پارہ پارہ کرنے کی سوچ اور ذہنیت کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ اس نظریے کے اکیلے نہیں بلکہ کچھ اور بھی لوگ ان کے ہم خیال ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق جموں کی وکلاء برادری سے ہے اور جنہوںنے ایک علیحدہ نظم تشکیل دے رکھا ہے جس نظم کو مدھو کشور نامی اور اس ذہنیت کے حامل جنون پرست اور کشمیر دُشمن جنونیوں کی حمایت اور آشیروادحاصل ہے۔
یہ جموں اور کشمیر کے عوام کی مجموعی بدقسمتی ہے کہ انہیں وقفے وقفے سے کچھ ایسے سیاستدان قیادت کے نام پر ملے جو ازلی موقعہ پرست اور علاقہ پرست خیالات کے رہے اور جو کورپشن اور بدعنوانیوں میں سراپا ملوث رہے ۔ لوگ انہیںوقت پر سمجھ نہ سکے اور جب سمجھ پائے تو تب تک بہت دیر ہوچکی تھی ۔
لال سنگھ بحیثیت وزیر کا شمار انہی خصوصیات کے حامل لوگوں میںکیاجاسکتا ہے ۔ بحیثیت وزیر ان کی کسی بھی دورمیں شبیہ شفاف نہیں سمجھی گئی ، چاہئے معاملہ ہیلتھ اور فیملی پلاننگ ایسے امورات سے تھا یا جنگلات کی دولت اور اثاثوں سے متعلق رہا۔
حیرت تو اس بات پر ہے کہ جموں وکشمیر انتظامیہ ان علاقہ پرست ، فرقہ پرست اور جموں وکشمیر کی وحدت اور سالمیت کے خلاف ان سازشی نظریات، بیانات اور کوششوں پر کوئی نوٹس نہیں لیتی حالانکہ اوسط کوئی شہری اگراس نوعیت کی معمولی حرکت کرتا ہے اور کسی معاملے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتاہے تو اس کے خلاف ساری مشنری حرکت میںآجاتی ہے،سارے قوانین حرکت میں آجاتے ہیں اور اس نوعیت کی سوچ یا کردار کے حامل افراد کو سلاخوں کے پیچھے ڈالدیا جاتاہے۔ لیکن چودھری لال سنگھ مسلسل ریاست کی وحدت اور سالمیت کے خلاف اپنی سازشانہ ذہنیت کا بار بار مظاہرہ کرنے کا مرتکب ہوتا جارہاہے اور اپنے ان بیانات سے کشمیراور جموں کے درمیان دوریوں اور منافرت کی دیواریں کھڑی کرنے اور علاقہ پرستانہ اور فرقہ پرستانہ جذبات کو اُبھارنے کی کوشش کررہا ہے لیکن اس کے باوجود انتظامیہ اس کے اس سنگین جرم کو نظرانداز کرتی جارہی ہے۔
اتر پردیش رقبہ اور آبادی کے حجم کے اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ اس ریاست کے بارے میں کبھی کبھار دھیمی آواز میں ماضی میں یہ مطالبہ یا خواہش سامنے آتی رہی کہ انتظامی امورات کی بہتری کے لئے یو پی کو چار ریاستوں میں تقسیم کردیاجانا چاہئے۔ لیکن کسی بھی مرکزی قیادت نے ایسی کسی کوشش کی حمایت نہ کی اور نہ ہی اس کو قابل اعتنا سمجھا گیا۔ یو پی کے کسی سیاستدان نے بھی اس ریاست کی وحدت اور سالمیت کو ٹکڑوں میں تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار نہیںکیا۔ لیکن جموں وکشمیر ایسی چھوٹی سی ریاست جو پہلے ہی پانچ چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تقسیم ہے کی وحدت اور سالمیت کو پارہ پارہ کرنے کا ایک اور مطالبہ لال سنگھ کی قیادت میںسامنے آرہاہے۔
اس مطالبے پر جموں نشین بی جے پی کی قیادت خاموش ہے اور جب جب بھی اس نوعیت کا مطالبہ سامنے آتا رہا یا لایا جاتا رہا تو جموں کی بی جے پی کی قیادت نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ یہ خموشی کیوں؟ جبکہ دوسری طرف خود بی جے پی کی سینئر قیادت جموں وکشمیرکے بارے میں بحیثیت مجموعی کچھ اور ہی موقف اور نظریہ رکھتی ہے جس کا تعلق جموںوکشمیر کی وحدت کے تحفظ، مجموعی ترقی اور انتشار پسند اور تفرقہ پسندعنصراور قوتوں کی سرکوبی سے تعلق رکھتا ہے۔