پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے اپنے دور اقتدار کے ایک وزیر خزانہ سید الطاف بخاری کو’’ سیاسی اخوان‘‘ قرار دیا ہے ۔ محبوبہ مفتی نے کس تناظرمیں اپنے دیرینہ ساتھی کو دورہ حاضر کا سیاسی اخوان قرار دیا وہ پوشیدہ نہیں کیوں کہ سید الطاف بخاری نے اپنے ایک رد عمل میں کچھ ایسے کلمات ادا کیے جن کو دیکھ کرمحبوبہ جی ناراض ہوئی اور اپنی ناراضگی کو زبان دے کر بخاری کوسیاسی اخوان کا اعزاز عطا کیا ۔محبوبہ مفتی کے اسی ردعمل کے نتیجہ میں بخاری نے اپنے پہلے بیان کو واپس لے لیا اور مشاورتی لب ولہجہ اختیار کرکے دوسرا بیان دیا۔
الطاف بخاری نے پہلے کیوں بیان دیا اور پھر محبوبہ کے ردعمل میں اپنا بیان کیوں بدل دیا اور محبوبہ مفتی نے کیوں الطاف کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کیا بادی النظر میں اس کے پیچھے صرف اور صرف سیاسی شعبدہ بازی ہے، تاریخ کے چند ایک دلخراش اور تکلیف دہ واقعات کے تناظر میں کشمیر سے بعد میں مختلف ادوار میں جو کچھ ردعمل، منفی یا مثبت سامنے آتا رہا اور جس کے نتیجے میں نہ صرف کشمیر کا امن وامان سکون اور چین غارت ہوتا رہا بلکہ بستیوں کی بستیوں تک اُجڑتی رہی، قبرستان آباد ہوتے رہے، گھر اور خاندان ماتم کدوں میں تبدیل ہوتے رہے بدقسمتی کہے یا سنگین المیہ کشمیرنشین سیاستدانوںکے قبیلوں کو ان معاملات ،جو زخم دیتے رہے ہیں اور جن زخموں سے سالہا سال گزرنے کے باوصف ابھی بھی پیپ رس رہی ہے،کی ٹیس تک محسوس نہیں ہورہی ہے یا ٹیس محسوس نہیں کی جا رہی ہے۔
یہ کشمیر کے سیاسی منظرنامے کا وہ پہلو ہے جو تکلیف دہ ہے۔ بے شک ہرسیاستدان کو اپنی سوچ اپنے مفادات اور اپنے مخصوص نظریات اور موقف کے مطابق اپنا سیاسی راستہ منتخب کرنے کا بھر پور اختیار ہے۔ لیکن اگراس کسی سیاستدان کی یہ سوچ، مفاد، مخصوص نظریہ اور موقف عوام کی خواہشات، احساسات اور ضروریات کا عکاسی نہ کرتا ہو اور لوگوں کی قلیل المدتی اور طویل المدتی مفادات، حقوق اور خواہشات کی تکمیل کی سمت میں کوئی مطابقت نہ رکھتا ہو تو ایسے سیاستدان کو عام فہم زبان میں پیرا ٹروپر ہی قرار اور سمجھا جاسکتا ہے، ایسے سیاستدان کی رگ رگ میں عوام کی خواہشات اور جذبات کا استحصال خون کے ساتھ دوڑ تا رہتا ہے جبکہ کسی بھی اعتبار سے ایسے سیاستدان کو عوام کا حقیقی نمائندہ، مستند ترجمان اور قابل اعتماد خیرخواہ تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس تناظرمیں یہ سوال کہ کشمیر کو گذرے ۷۵؍ برسوں میںکوئی حقیقی اور عوام کی خیرخواہی کے جذبہ سے سرشار کوئی لیڈر اور ترجمان ملا یہ بحث طلب ہے البتہ جو بھی کوئی فرد سیاست کا چوغہ پہن کر سیاسی اُفق پر جلوہ گر ہوتا رہا اُس نے کشمیر کے وسیع ترمفادات میں کشمیر کیلئے کوئی نریٹو وضع نہ کیا اور نہ پیش کرسکا۔ بانت بانت کی بولیاں بولنے والے سیاستدان آتے رہے اور اپنا اپنامفاد حاصل کرکے کچھ گوشہ نشین ہوتے رہے، کچھ دارفانی کو کوچ کرگئے کچھ ابھی حیات ہیں مگر وہ بھی ابھی تک کشمیرکیلئے کوئی ایک نریٹو پر نہ متفق ہیں اور نہ ہی دے سکے۔ بس ہر کوئی اپنی اپنی سیاسی دکان سجائے بیٹھا ہے۔
کشمیر کاہر سیاستدان جانتا ہے کہ عسکریت کا بیج کس نے ، کب، کہاں اور کن مخصوص حالات میں بویا، وقت آنے پر یہ سبھی مختلف لبادے اوڑھ اوڑھ کر میدان میںکودتے رہے، کسی نے اپنے حامیوں اور کارکنوں کو تربیت کیلئے سرحد پار روانہ کردیا، کسی نے حوالہ کی دُکان چالیس فیصد کمیشن پر سجالی، کسی نے پردے کے پیچھے رہ کرعسکریت کی معاونت کی، کسی نے اپنے دور عہد میں۱۸۰؍ کمسن نوجوانوں کوسربازار گولیوں سے اڑا کر پھر اس اجتماعی قتل وغارت کو یہ کہکر جواز عطا کیا کہ مارے گئے نوجوان منشیات کے عادی تھے جو ہجوم میں موجود دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے ، کسی نے مارے جاتے رہے نوجوانوں کے بارے میں یہ فتوی صادر کیا یہ اپنے گھروں سے دودھ اور مٹھائیاں خریدنے بازار نہیں گئے تھے، کسی نے عسکریت کے امیروں کو الیکشنوں میں اپنی کامیابی یقینی بنانے کیلئے اُن کے کیڈر کا ووٹ حاصل کیااور اس طرح پورے کشمیر میں دہشت گردوں کے حوالے سے ایک مخصوص ایکو سسٹم کو ان کی معاونت کے لیے جنم دیا گیا۔
اس ایکو سسٹم کو جڑ سے ختم کرنے کی سمت میں اب اقدامات کئے جارہے ہیں لیکن کشمیر نشین کوئی ایک بھی سیاستدان اس بات کو جھٹلانے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ کشمیرکی کم وبیش ہر پارٹی میںاس ایکو سسٹم کے تانے بانے موجود ہیں لیکن سیاسی اصطلاح میں اس ایکو سسٹم کو ریفارمڈ سیاسی کارکن کا چوغہ پہنایا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے اور کشمیرکے چپے چپے کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ بحیثیت عسکریت پسند یہ بھی عوام اور اپنے نظریاتی مخالفین کے قتل وغارت ، ان کے اثاثوں کی لوٹ مار، بھتہ خوری، املاک اور اراضیوں پر ناجائز قبضوں، سرحد پار سے موصول فنڈنگ کی بندر بانٹ اور دیگر سفاکانہ کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔
ایکو سسٹم کے اس مخصوص حصے کی بھی اُسی طرح بیخ کنی درکار ہونی چاہئے جس طریقے سے ایکو سسٹم سے وابستہ دیگر لوگوں کے ساتھ پیش آیا جارہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں پناہ گزین ہونے اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کا تحفظ یقینی بنانے کا لبادہ پہننے سے کوئی پاکیزہ یا پاکباز نہیں بن سکتا، کیونکہ فطرت اور خصلت تبدیل نہیں ہوتی بلکہ یہ رگوں میں دوڑنے والے خون کا ہی لازم وملزوم ہے۔
کشمیر کی سیاسی اُفق کو اسی ذہنیت اور اسی مخصوص نوعیت کی گند سے کثیف اور آلودہ بنانے کیلئے کشمیر نشین ہر سیاسی پارٹی اور ان سے وابستہ لیڈر شپ براہ راست ذمہ دار ہے۔ کشمیر کی نوجوان پود کو ان میں سے بعض پیشہ ور سیاست کاروں کے رول اور کردار سے زیادہ واقفیت نہیں ہوگی لیکن ان کا ہر کردار اور رول تاریخ کے پنوں میںموجود ہے جس کو حذف نہیں کیاجاسکتا ہے۔
کیا کشمیر کے یہ سیاسی قبیلے اپنی جگہ یہ فرض کربیٹھے ہیں کہ وہ جو کریں گے اور کہیں گے عوام ان پر بھروسہ کررہے ہیں اور انہیں بااعتبار سمجھ رہے ہیں، اگر ایسا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میںرہتے ہیں۔کیا انہیں یہ فہم اور ادراک نہیں کہ یہاں لوگوں کی بحیثیت مجموعی بے حد مشکلات ہیں، وہ پریشانیوں ، کم روزگار، بے روزگاری ،آبادی کا جوان طبقہ ان پریشانیوں اور مصیبتوں کو سہ نہ پاکر منشیات کی لت میں گرفتار اسی راستے پر گامزن ہوکر خود کو دور بھگا رہا ہے، اقتصادی محاذ پر آبادی کے ہر طبقے کو پریشانیاں ہیں، کیا یہ سارے معاملات بحیثیت مجموعی کشمیرکے نریٹو کیلئے کافی اور وزن دار نہیں ہیں۔ اور کیا ان معاملات کا حل مرکز (دہلی) سے محاذ آرائی اور بے ثمرہ سیاسی گٹھ بندھنوں کے ساتھ ہاتھ ملانے سے ممکن ہے، جواب نہیں میں ہے، مرکز میں قائم سرکار حاصل اختیارات سے قطع نظر فیڈرل سسٹم کی قائد ہے اور اس کے ساتھ معاملات پر بات کرنے سے ہی کشمیرکے مرض کی دوا موجود ہے۔ آنکھیں بند کرکے معاملات پر حمایت یا مخالفت منافقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔