جموں کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس( کے اے ایس ) کے بعد اب کل ہند ایڈمنسٹریٹو سروس( آئی اے ایس) کے امتحان کے جو نتائج سامنے آئے ہیں کشمیر کے حوالے سے مایوس کن تصور کیے جا سکتے ہیں ۔اس کے برعکس جموں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے دونوں امتحانات میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس پر جموںبجا طور پر فخر کرسکتاہے۔
چند گھنٹے قبل یوپی ایس سی کے امتحان کے جو نتائج سامنے آئے ہیں ان میں بحیثیت مجموعی جموں و کشمیر سے ۱۶؍ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جن میں سے ۱۳؍کا تعلق جموں اور صرف ۳؍ کا تعلق کشمیر، اسلام آباد،سوپور اور صورہ سرینگر سے ہے۔دونوں خطو ںسے کل کتنے اُمیدواروں نے امتحانات میں شرکت کی اس بارے میں اعداد وشمار فوری طور سے دستیاب تو نہیں البتہ کامیاب اُمیدواروں کا جو شرح تناسب کشمیرکے تعلق سے سامنے آیا ہے وہ کئی اعتبار سے مایوس کن ہے۔
کشمیر کیوں ملکی سطح کے مقابلے آرائی امتحانات میںبچھڑ تا جارہاہے اس بارے میں کوئی تجزیاتی سروے فی الوقت تک دستیاب نہیں لیکن یہ رجحان کشمیرکے مستقبل اور کشمیر کے وسیع تر مفادات کے حوالہ سے صحتمند نہیں ہے۔ ممکن ہے کچھ حلقے ہمارے مایوس کن ، اصطلاح کے استعمال سے اتفاق نہیں کریں گے اور یہ دلیل پیش کریں گے کہ کسی بھی مقابلہ آرائی کے امتحان میںاُمیدوار کی صلاحیت، ذہانت ، کارکردگی، قابلیت اور سب سے بڑھ کر محنت بُنیادی معیار کی حیثیت کا حامل ہے جو کہ بالکل درست ہے لیکن کیا یہ فرض کیا جائے کہ کشمیر کا نوجوان کیلئے آئی اے ایس، آئی پی ایس، کے اے ایس وغیرہ حیثیتوں کاحصول اب کسی ایک یا کئی ایک وجوہات کی بنا پر باعث ترغیب یا زیادہ پسندیدہ نہیں رہا اور وہ دوسرے شعبوں کی جانب محو پرواز ہے اور اپنے کیرئیر کو ان سروسز سے کہیں زیادہ کچھ دوسری سروسز کو اپنے لئے باعث کشش خیال کررہاہے۔
یہ سارے سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت تو ہے لیکن یہ سوال بھی نظر انداز کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ اُمیدوار چاہئے جموں کا ہو یا کشمیر سے تعلق رکھتا ہے اگر ان سروسز کو اپنے لئے پُرکشش اور قابل فخر نہیںسمجھ رہا ہے تو کیا وہ اپنے عوام اور معاشرے کے مفادات کے تعلق سے کسی زیادتی کا مرتکب ہوکر خود کو غیر ذمہ دار ثابت نہیں کررہاہے۔ اس حوالہ سے ان کیلئے امتحان میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی لڑکی اومہ ہراتھی کی مثال بطور جذبہ، لگن اور کچھ حاصل کرنے کی سمت میںقابل ذکر ہے جو چاربار اس مخصوص امتحان میں ناکام رہی لیکن پانچویں کوشش میں آگ کے اس دریا کو عبور کرنے میںکامیابی پالی۔ اسی طرح ایک اور لڑکی پرسن جیت کور اور منوہر سنگھ جن کا تعلق جموں سے ہے پہلے ہی کے اے ایس (۲۰۲۱) میںکامیابی حاصل کرچکے ہیں اور یو پی ایس سی کے نتائج سامنے آتے وقت وہ کے اے ایس کے حوالہ سے تربیت حاصل کررہے تھے۔
کیوں چار بار ناکامی پر اومہ ہراتھی دل برداشتہ نہیںہوئی اور کیوں پرسن جیت کور اور منوہر سنگھ کے اے اے ایس میں کامیابی کا جھنڈا لہرانے کے باوجود آئی اے ایس کا تمغہ اپنے سینوں پر سجانے کیلئے اس آگ میں کود پڑے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ کشمیر کا اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ، جو ہر اعتبار سے باصلاحیت، دوسروں کے مقابلے میں ذہین اور منفرد انداز فکر کے تعلق سے بہت آگے بلکہ ترقی یافتہ ہے کیوں اب کے اے ایس اور آئی اے ایس اور آئی پی ایس کے امتحانات میںشرکت کرنے سے دور بھاگ رہا ہے، یا گھبراہٹ کا شکار ہے یااسے کسی نفسیاتی کمتری نے اس کو آگھیرا ہے؟
جوکوئی بھی وجہ ہے ، کشمیر کے نوجوانوں کو اس اختر اعی خول سے خود کو باہر لانا پڑے گا ،وقت کسی کا غلام نہیں ،یہ وقت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنے والا نہیں ہے، تبدیلی آئے گی، حالات بدل جائیں گے ،موسم میںبھی بہتری آئے گی ،سوچوں اور اپروچوں کی دھارائیں بھی تاریخ کی تاریک راہوں کی نذر ہوکرنئی سوچوں اور اپروچوں کو جگہ دیں گی، لیکن کچھ حاصل کرنے اور سب سے بڑھ کر مستقبل کے معماروں کے حوالہ سے خدمات اور کردار کے اہل بنانے کیلئے میدان میںاُترتے رہنے کی ترجیح اور ضرورت کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
کشمیر نشین کچھ سرکردہ سیاسی و غیر سیاسی شخصیات اورکچھ سابق بیوروکریٹوںنے یو پی ایس سی کے امتحانات میں کامیاب اُمیدواروں کو مبارکباد دی ہے اور ان کے تئیں نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ ان کی یہ نیک خواہشات اور مبارکبادیوں پر ہنسی بھی آتی ہے اور کچھ سرد آہیں بھی فطری ردعمل کے طور نکلتی ہیں۔ بحیثیت سیاستدان اور اقتدار پر سالہاسال اپنی زندگیاں بسرکرنے والے ان سیاستدانوں سے یہ پوچھنے کا حق تو ہے کہ انہوں نے کشمیر کی نوجوان نسل کا کیریئر روشن اور تابناک بنانے کی سمت میں کون سا کردار ادا کیا، اپنے دور اقتدار کے دوران کتنے تربیتی اور کوچنگ مراکز کا قیام عمل میں لانے کی سمت میں رول ادا کیا،اور جب کبھی کوئی امتحانات میںکامیابی حاصل کرتا نظر آرہا ہے تو اپنے اندھے سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے مبارکباد یوں کے لالی پف ہاتھ میں لے کر طواف کرتے نظرآرہے ہیں۔
اسی طرح کچھ سابق بیروکریٹ بھی کچھ کم نہیں، وہ بھی مبارکبادیوں کے پیغامات کے ساتھ میدان میں کود پڑتے ہیں، معلوم نہیں کہ وہ ایساکرکے کیا چاہتے ہیں، اگر چہ ان میں سے ایک صاحب اب ایک عرصہ سے مرکزی اور ریاستی مالی امداد کے طفیل این جی او چلارہے ہیں لیکن اس مخصوص شعبے میںان کی بظاہر کوئی خدمات نہیں ہے ۔ بس دکانیںسجائے بیٹھے ہیں اور جو کچھ مالی مراعات حاصل کررہے ہیں ان پر عیش کررہے ہیں۔
نوجوانوں کو خود بھی اس تمام تر منظرنامے کا اپنے قدم روک کر بہت گہرائی اور گیرائی کے ساتھ اپنے اردگرد کے ماحول، انداز فکر، طرزعمل، حالات واقعات کا احاطہ اور تجزیہ کرنا چاہئے اور اس سوچ کو مستحکم بنائیں کہ سیاستدان استحصالانہ سوچ اور مفادات رکھتے ہیں اور وہ نوجوان نسل کی نشوونما، تربیت اور کچھ بہتر حاصل کرنے کیلئے شیرین زبان تو رکھتے ہیں لیکن عملی میدان میںکردار اداکرنے کیلئے تیار نہیں۔ وہ نوجوانوں کے جذبات اور احساسات کا ناجائز استحصال کرکے انہیں گمراہ کرتے ہیں، ان کے ہاتھ پتھر تھمادیتے ہیں، انہیں انفرادی اور ہجومی تشدد پراُکسانے کا ہر فن معلوم ہے لیکن وہ ہرگز ’’معلم‘‘ نہیں۔ یہ بات ہر نوجوان چاہئے تعلیم یافتہ ہے یا غیر تعلیم یافتہ اپنے اپنے گرہ میں باندھ رکھے۔