ہر سیاست دان جموں اور ملک کے دوسرے حصوں میں مقیم مائیگرنٹ کشمیر ی پنڈتوں کو گھر واپسی کا لالی پف منہ میں ٹھونس کر گہری نیند سلادینے کا راستہ اختیار کرکے درحقیقت راہ فرار ہی حاصل کررہاہے۔یہ مخصوص طریقہ کار اب گذشتہ ۳۰؍ سال سے جاری ہے جبکہ حکومتی سطح پر بھی یہی کچھ کیاجارہاہے۔
مائیگرنٹ پنڈتوں کی بستیوں اور کیمپوں میںمقیم پنڈت خاندانوں سے ملاقات کے دوران ہر سیاستدان ایک ہی انداز میںبات کررہاہے کہ اگر وہ اقتدار میں آجائے تو پنڈتوں کو عزت کے ساتھ وادی واپس لایاجائے گا۔ یعنی دوسرے الفاظ میں پنڈتوں کی واپسی یا اپنے گھروں یا بستیوں میں بحالی کو حصول اقتدار سے مشروط کیاجارہاہے اور یہ بھی پیغام دیاجارہا ہے کہ جتنے بھی ووٹ ان کے ہیں وہ سارے ’ہمارے‘ لئے وقف رکھیں۔ یہ سودا بازی ہے، گداگری ہے اور سیاسی شعبدہ بازی ہے۔ کسی سیاستدان میں ذمہ داری کا عنصر نہیں اور نہ یہ جرأت ہے کہ وہ بغیر اقتدار کے شرط کے پنڈتوں کی واپسی کے لئے خود اور اپنی پارٹی کو وقف کرے۔
مہاجرت کی اس ساری مدت کے دوران حکومتی سطح پر بھی پنڈتوں کو کچھ اسی انداز میں لالی پف منہ میں رکھا جاتارہا، کبھی ٹرانزٹ بستیوں کامژدہ سنایا گیا ، کبھی اپنے گھروں کی واپسی کی یقین دہانی کرائی جاتی رہی تو کبھی سکیورٹی حصار میں مخصوص کلستروں میں پنڈتوں کو آباد کرنے کے اعلانات کئے جاتے رہے ہیں۔ لیکن کہیں کوئی سنجیدہ نہیں اور نہ ہی کسی ذمہ داری یا کسی اخلاقی پہلو کو ملحوظ خاطر رکھاجارہاہے۔
عموماً اس سارے مسئلے کو مختلف نوعیت کے باہم متضاد اختلافی معاملات میں اُلجھا یا جارہاہے، ترک سکونت کا ذمہ دارکون ہے ، کس نے کس کی ایماء پر پنڈتوں کو گھروں سے نکلوایا، کس نے بستیوں میںٹرانسپورٹ کی سہولیات دستیاب رکھ کر ترک سکونت کی حوصلہ افزائی کی، کیوں وقت کے مقامی اور دہلی کے حکمرانوں نے دانشمندی اور دور اندیشی سے کام لیکر بروقت اقدامات نہیں کئے، اس بحث میں ۳۰؍ سال یونہی بیت گئے لیکن بُنیادی مسئلہ جہاں تھا آج کی تاریخ میں بھی وہیں اٹکا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی دلخراش صورتحال ہے کہ اس کے تناظرمیں یہ مطالبہ کرنے میںغالباً حق بجانب ہیں کہ بس کرو، اس فضول اور بے کار کی بحث میںلوگوں کو مزید اُلجھانے سے اب اجتناب کرو، کیونکہ بہت کچھ اب تک ہوا ہے، وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ اس بے عملی اور سودا گرانہ راستہ کو یہی مختصر کردیاجائے۔
کچھ سیاستدان یہ رائے بھی وقفے وقفے سے ظاہر کررہے ہیں کہ اب خود پنڈت برداری سے وابستہ لوگ واپس نہیں آنا چاہتے ہیں ۔ انکی دلیل یہ ہے کہ پنڈتوں کی نئی پود جوان اور پڑھ لکھ کر ملک کے مختلف حصوں میں روزگار اور ملازمتیں حاصل کرکے خود کفالت کی راہ پر چل دیئے ہیں، انہوںنے رہائش کیلئے مکانات تعمیر کرلئے ہیں لہٰذا وہ اب خود کوایک بار پھر مہاجرت کی صورت میں دیکھنا اور سہنا نہیں چاہتے ہیں۔ فر ض کریں کہ کچھ سیاستدانوں کی یہ سوچ یا آرا درست ہے لیکن کتنے لوگوں اور گھرانوں کے بارے میں؟ سارے مہاجر پنڈتوں کے بارے میں ایسی کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے۔ باالخصوص کشمیرکی دہی پنڈت آبادی کے بارے میں، وہ واقعی واپس آنا چاہتے ہیں لیکن ان کا کہنا یہی ہے کہ واپسی کے لئے فضا کو سازگارنہیں بنایا جارہاہے اور ان کے جو کچھ خدشات ہیں انہیں بھی دور کرنے کی سمت میںکسی سنجیدگی سے کام نہیں لیاجارہاہے۔
وہ پنڈت جو واقعی چاہتے ہیں کہ واپس آجائیں اس لئے نہیں آنے پرآمادہ ہیںکہ وہ ٹرانزٹ بستیوں میں رہائش پذیر ہونا نہیں چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کوئی نظام یا طریقہ کار ان کیلئے مجموعی قید ہے، وہ ان بستیوں سے باہر نہیں آجاسکتے کیونکہ سکیورٹی حصار ان کے گرد اس قدر سخت ہوسکتاہے کہ وہ اپنے پر نہیں مارسکتے۔وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے اصلی گھرانوں اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ اپنی پرانی آبائی بستیوں میںرہائش اختیارکریں لیکن دبی زبان میںان کا کہنا بلکہ گلہ شکوہ یہ بھی ہے کہ ایڈمنسٹریشن ان کی اس خواہش کی تکمیل کی حامی نہیںہے۔ یہ بھی ایک اشو ہے، غلط یا محض مفروضہ کچھ قطعیت کے ساتھ کہا نہیں جاسکتاہے۔
بہرحال فی الوقت تک صورتحال یہی ہے کہ ترک سکونت اختیار کرگئے پنڈت اپنی موجودہ پوزیشن سے مطمئن نہیںہیں۔ وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں،یہ مسائل ایک ، دو یا تین نہیں بلکہ مسائل کا انبوہ گذرے تیس سالوں میں کھڑا ہوچکا ہے جن کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ سارے حل مختلف ایجنڈا، مختلف مشنوں اور مختلف اہداف کے حوالہ سے اندھی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ بھی رہے ہے اور چڑھائے بھی جارہے ہیں۔ کچھ خود ساختہ لیڈر بھی اس مدت کے دوران اُفق پر نمودار ہوتے رہے اور انہوں نے بھی اپنی مفاد پرستی اور شکم پرستی کے حوالہ سے غلط رول ادا کئے۔ کچھ لیڈر مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہوکر انہی جماعتوں کے نظریات اور موقفوں کی دلالی کرتے کرتے اس حد تک آگے چلے گئے کہ پنڈت برادری کو جوبُنیادی مسائل اور مشکلات درپیش ہیںوہ پس پشت چلتے گئے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خود پنڈت برادری سے وابستہ چند ایک ذمہ داران وہ بھی ہیں جو اس ساری صورتحال کا قابل قبول اور باعزت حل پیش کرتے رہتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں ان کی آراء کاا حترام نہیں کیاجارہاہے یا سنجیدگی سے نہیں لیاجارہاہے۔ وہ ماضی کی تلخیوں، غلطیوں اور زیادتیوں کو بھلاکرآگے بڑھنے اور کشمیریت کے اصل جذبہ کا احیاء کرکے آگے کی زندگی کا سفرطے کرنے کی بات کررہے ہیں، وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمسایے اس ضمن میں اپنا ذمہ دار انہ اور بڑے بھائی کا کردار اداکریں، جووہ کرنے کیلئے تیار ہیں بلکہ اس سمت میں وہ اب تک متعدد بار اپنی نیک نیتی کا ثبوت بھی پیش کرچکے ہیں۔ لیکن کوئی ہے جو یہ راستہ بھی روکنے کی مسلسل کوشش کررہاہے اور گڑھے مردے اُکھاڑ کر کسی بھی حل کی تلاش اور پیش رفت میں مزاحم ہورہاہے۔