سابق گورنر ست پال ملک راج بھون سے فار غ ہونے کے بعد سے خبرو نظر میں ہیں۔ وہ دورے کررہے ہیں، لوگوں سے مل رہے ہیں، بیانات اور انٹرویوز دے رہے ہیں۔ بہت سارے دعویٰ بھی کرتے جارہے ہیں ۔ جن میں خاص طور سے پلوامہ میں فورسز کا نوائے پر دہشت گردانہ حملہ قابل ذکر ہیں اور اس حوالہ سے وہ مسلسل دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ معاملہ ویسا نہیں تھا جیسا دکھانے اور ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے اس مخصوص معاملہ کے بارے میںست پال سے سوال کیا کہ وہ تب سے اب تک خاموش کیوں رہے اور اب کیوں یہ معاملہ اچھالا جارہا ہے۔ ست پال کا جواب یہ ہے کہ وہ تب سے برابر بولتے رہے ہیں لیکن انہیں خاموش رہنے کا حکم دیاگیا تھا۔ بہرحال ملک کتنا سچ بول رہے ہیں اس کا علم تو انہی کو ہے البتہ لوگوں کا تجسس اپنی جگہ!
اپنے کچھ انٹرویوز میں ست پال ملک نے جموںوکشمیر کے تعلق سے اپنے دور ملازمت کے دوران پیش آمدہ کچھ مخصوص معاملات پر بھی زبان کھولی ہے اور متعددسوالوں کے جواب میں وہی گھسی پٹی راگنی کا راگ الاپتے رہے ہیں کہ راج بھون کا فیکس خراب تھا، وہ گھر پر اکیلا تھا کیونکہ اس کا سٹاف چھٹی پر چلا گیا تھا، لیکن کشمیر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ست پال ملک اپنے عہد گونری کے دوران جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہے، عوام کی صفوں میں گردش کررہی خبروں کو محض افواہ قرار دیتے رہے، یقین دلاتے رہے کہ جموں وکشمیرکے عوام کے حقوق اور مفادات کے ساتھ کچھ بھی غلط ہونے نہیں جارہاہے،حالانکہ خود انہیں معلوم تھاکہ وہ جھٹ بول کرکشمیر کو گمراہ کررہے ہیں۔
لیکن ہٹلر کے دست راست گوبلز کی روح کو اپنے اندر سمو کر ست پال ملک وہی کرتے رہے جو گوبلز عالمی جنگ کے دوران کرتے رہے اور جھوٹ پر جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ بھی کرتے رہے اور دھوکہ بھی دیتے رہے ۔ کئی معاملات اور واقعات ان کے دور سے منسوب ہیں لیکن اندھی سیاسی اور انتظامی مصلحتوں کی آڑ میں کسی بھی مرحلہ پر یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ وہ اس قدر جھوٹ کیوں بو ل رہے ہیں اور کشمیرکو مسلسل گمراہ کیوں کرتے جارہے ہیں۔
البتہ ست پال ملک اپنے پورے عہد کے دوران بار بار ایک سچ بولتے رہے کہ ملک کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا ایک مخصوص حصہ کشمیر دُشمنی کا رول ادا کررہا ہے اور کشمیریوں کو عفریت کے طور پر پورے ملک میں پیش کرکے نہ صرف ان کی کردار کشی کا مجرم بن رہا ہے بلکہ ملکی رائے عامہ کو کشمیرکے بارے میں غلط اور گمراہ کن فیڈ کررہاہے ۔ جس جھوٹ کو وہ بار بار بولتے رہے اور جن خبروں کو وہ افواہیں قرار دیتے رہے بالآخر وہ ایک صبح کو روشن سچ کی شکل وصورت میں کشمیر پر سایہ فگن ہوا۔ اس وقت ان لوگوں جو ست پال ملک کی باتوں اور یقین دہانیوں پر یقین رکھتے تھے کو بھی اس بات کا احساس ہوا کہ واقعی آئینی عہد ے پر فائزیہ شخص نہ صرف جھوٹ بولتا رہا بلکہ جموںوکشمیر کے آئین کی بے حرمتی کرکے پامال کرتا رہا۔
اس میں دو رائے نہیں کہ جموںوکشمیر میں کورپشن ہے، سیاسی سطح پر بھی یہ وبا موجود رہی ہے اور فی الوقت بھی ہے، انتظامیہ بھی اس لعنت سے مستثنیٰ نہیں، لیکن ست پال ملک کشمیر کی ساری ۸۰؍لاکھ کی آبادی کو کورپٹ اور بدعنوان لوگوں کے طور اپنے ہر انٹرویو اور بیانات میں پیش کرتارہا۔ بار بار وہ اپنا یہ دعویٰ دہراتا رہا کہ کشمیر میںلوگوں کے پاس مکان نہیں بلکہ محلات نما گھر ہیں جو درجنوں کمروں اور واش روموں کی سہولیت سے آراستہ ہیں جبکہ عالیشان فرنیچر اور آرائش کا سامان ہر گھر میں موجود ہے۔ ست پال ملک اس نوعیت کے بیانات اور کشمیر کے تئیں اپنی مسلسل ہرزہ سرائی تو کرتے رہے لیکن کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ کشمیر کی انتظامی اور سیاسی زندگیوں میںاگر کورپشن موجود ہے اور ۱۹۴۷ء سے اُس وقت تک پروان چڑھایا جاتارہا تو اُس میں دہلی کے حکمرانوںکا رول اور کردار کے ساتھ ساتھ معاونت اور سرپرستی کس حد تک رہی! اس پر بھی کبھی غورنہیں کیا کہ کشمیر ی عوام کی زائد از ۸۰؍ فیصدآبادی دہی ہے اوراس آبادی کو متوازن ذرائع آمدن کے وسائل موجود ہیں۔ جس کا ست پال ملک کے آبائی گائوں کی آبادی تصور بھی نہیں کرسکتی۔
ست پال ملک صاحب کے ان حالیہ بیانات یا دوسرے الفاظ میں مسلسل کئے جارہے دعوئوں کی حقانیت کا پتہ لگانے کیلئے ہم گہرائی کے ساتھ غیر جانبدار اور منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے جیسا کہ ان کے بیانات کے بعد کچھ سیاسی حلقوں کی طرف سے کیا بھی گیا لیکن ہمیں معلوم ہے کہ کوئی تحقیقات نہیں ہوگی اور نہ ست پال ملک کے ہاتھوں اُس وقت کے جموںوکشمیر آئین جس کے تحت انہوںنے حلف اُٹھاکر راج بھون کو اپنا مسکن بنایا کی بے حرمتی اور پامالی کے لئے اس کا محاسبہ کیاجائیگا۔ یہ بھی پتہ لگانے او رجاننے کی ضرورت نہیں سمجھی جائیگی کہ آیا واقعی فیکس مشین خراب ہوئی تھی۔
بہرحال ست پال ملک کا سیاسی قد، وابستگی اورسیاسی جغرافیائی حدودو اربعہ یہ ہے کہ وہ فی الوقت حکمران جماعت بی جی پی کے ایک سرکردہ لیڈر اور رکن گنے جاتے ہیں، لیکن پارٹی لیڈر شپ اور حکومتی قیادت کے ساتھ ان کی اصل میں کس بات پر ٹھن گئی ہے اس بارے میں اصل میں کوئی جانکاری عوام کے پاس نہیں، البتہ ان کے بیانات، انٹرویوز اور مختلف معاملات کے حوالہ سے ان کے مسلسل دعوئوں سے یہی اخذ ہورہاہے کہ وہ اپنی پارٹی اور قیادت سے فی الوقت برسرجنگ ہیں، کوئی ٹھیس انہیں اندر ہی اندر سے زخمی کررہی ہے جس کی ٹیس وہ شدت کے ساتھ محسوس کرکے آگ کے گولے برساتے جارہے ہیں۔ ست پال ملک اپنے نئے ایجنڈا اور مشن کو آگے لے جانے کیلئے اپنی برادری ذات پات کے جذبات کو بھڑکا کر استعمال کررہے ہیں اور ذات پات کی انہی بنیادوں پر ملک کا سیاسی منظرنامہ کھڑا ہے۔
بحیثیت مجموعی ست پال ملک کے دعوئوں پر اعتبار نہیں کیاجاسکتا کیونکہ یہ شخص ذمہ دار آئینی عہدوں پر باالخصوص جموں وکشمیر کے حوالہ سے فائز رہا لیکن کبھی سچ کا سہارا نہیں لیا۔ لہٰذا معاملہ پلوامہ کا ہو یا اور کوئی اشو اس کے دعوے سراسر بے اعتبار ہی تصور کئے جاسکتے ہیں۔