کشمیر باالخصوص شہر سرینگر کی سڑکوں کی خستہ حالت کے تمام پرانے ریکارڈ فی الوقت ٹوٹ رہے ہیں۔ تاحد نگاہ تک ہر سڑک، ہر رابطہ سڑک اور ہر گلی کوچہ اپنی خستہ حالت دیکھ کر مرثیہ خواں ہے۔ اگر چہ کہا جارہاہے کہ یہ ٹوٹ پھوٹ جس کو سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے تحت سرنو تعمیر وتجدید کا نام دیاجارہاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے متعلقہ انجینئرنگ ونگوں نے ایک بار پھر اپنی نااہلیت ناتجربہ کاری اور افلاس ذدہ ذہنیت کا عملی ثبوت بھی دیا ہے او ربھر پور مظاہرہ بھی کررہے ہیں۔
سڑکوں کی یہ ناگفت بہ حالت سرینگر شہرکی ہر سڑک کو ٹریفک جاموں اور اس حوالہ سے شدید ترین ازیتوں سے ہم کنار کرنے کے ایسے ریکارڈ قائم کررہی ہے کہ جس کی نظیر غالباً ملک کی کسی دوسری ریاست یا یوٹی سے نہیں ملے گی۔ متعلقہ پروجیکٹ کے منتظمین مسلسل دعویٰ کررہے ہیں کہ بس کچھ دن اور انتظار جس کے بعد لوگ اپنی سڑکوں کی شاندار ہیت دیکھ کر عش عش کراُٹھیں گے۔ انہیں اپنے شہر کی مجوزہ خوبصورتی پر ناز ہوگا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو اور متعلقہ منتظمین کا یہ خواب شرمندہ تعبیربھی ہو۔
لیکن سوال یہ ہے اور اس کا جواب کون دے گا اور اس نااہلیت کا ذمہ دار کون ہوگا کہ برستی بارشوں، گرتے جارہے درجہ حرارت اور خستہ حالت ہی میں ان سڑکوں پر رواں دواں بھاری ٹریفک کس میکڈم کو جگہ پکڑنے کی مہلت فراہم کرے گا! کیا ان خستہ حال اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں ، جن کا نامعلوم وجوہات کی بنا پر حجم لمبائی چوڑائی اور گہرائی کے حوالہ سے ہر لمحہ گھٹا یا جارہا ہے اور بارشوں کا سلسلہ برابر جاری ہے کس شاہکار انجینئرنگ تکنیک اور طریقہ کار کے تحت میکڈم بچھایا جارہاہے اور پھر یہ اُمید کی جارہی ہے کہ بچھایا جارہا میکڈم مضبوط اور مستحکم بھی ہوگا۔
عوام کا اس سارے حوالہ سے تاثر یہ ہے کہ یہ لوٹ ، استحصال اور نااہلیت کا بدترین مجسمہ ہے اور اس بدترین اور بدصورت مجسمہ کا امتزاج ان کے لئے ناقابل فہم ہے۔ لوگ بحیثیت مجموعی فلاحی کاموں، تعمیر وترقی اور تجدیدی سرگرمیوں کا عموماً خیر مقدم کرتے ہیں لیکن یہ کب ہوں، کس موسم میں ہوں اور کاموں کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے کون سے طریقے بروئے کار لائیں جائیں خود انجینئرنگ بک میں اس کیلئے سب کچھ پڑھنے اور عمل کرنے کیلئے دستیاب ہے ۔ لیکن کشمیر کی انجینئرنگ شعبوں کی یہ روایت رہی ہے کہ یہاں مالی سال کے آخری ایام میں کام ہاتھ میں لئے جاتے رہے ہیں، بارشوں اور برفباری سے متاثرہ سڑکوں کو صاف کرنے کے نام پر کھدائی کی جاتی ہے اور پھر مارچ …اپریل میںکام ہاتھ میں لے کر مختص فنڈز کی بندربانٹ کے فلڈ گیٹ کھولے جاتے رہے ہیں ۔ فی الوقت بھی یہی کچھ مشاہدہ میں آرہاہے۔
اس حوالہ سے نظارے اور مشاہدے قابل دید ہیں۔ بس صبر وتحمل کی ضرورت ہے اور مشاہدہ کیلئے خستہ حال سڑکوں پر مٹر گشت کی ضرورت ہے۔ سارا قصہ خود سڑک بیان کرتی ہے۔ سمارٹ سٹی پروجیکٹ ۲۴؍ گھنٹے پہلے وضع کرکے منظور نہیں کیاگیا بلکہ کئی سال قبل سرینگر اور جموں سٹی پروجیکٹوں کی منظوری دی گئی اور ہر پروجیکٹ کیلئے ابتداء میں سو ، سو کروڑ روپے کا بجٹ مختص کردیاگیا۔ لیکن عمل درآمد کا فقدان کئی سال پر محیط رہنے کے بعد اب بے ڈھنگی عجلت کا مظاہرہ کیاجارہاہے۔ اچھی بھلی اور چنگی سڑکوں کی توڑ پھوڑ اور کھدائی کا کام ہاتھ میں لے کر نہ صرف بلا جواز کا موں کو Createکیاجارہاہے بلکہ بے ہنگم جوڑ توڑ کا بھی راستہ اختیار کیاجارہاہے۔
اس تعلق سے کئی ایک مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ گھنٹہ گھر کی عمارت میں کیا کمی اور بدصورتی تھی کہ اس کو ہر دورمیں بار بار نشانہ بنایا جارہاہے۔ شیخ محمد عبداللہ کے دور کی اس تخلیق جس میں ملک کے ایک سرکردہ صنعتی گھرانے نے بھی اپنا تعاون پیش کیاتھا گھنٹہ گھر کو تب سے اب تک کئی بار زمین بوس کیاجاتا رہا اور اب کی بار بھی ایسا ہی کیاگیا۔ اس کے قریب ہی ایک خوبصورت پارک کو بھی وجود بخشا گیا۔ لیکن ان دونوں کو بغیر کسی معقول جواز کے کھنڈرات میں تبدیل کیا گیا۔ سارے علاقے میں بجلی اور پانی کا ترسیلی نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔
مولانا آزاد سڑک کی کشادگی سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے منتظمین اور کشمیر کے قابل ترین انجینئرنگ شعبوں کو غالباً ایک آنکھ نہیں بھاتی رہی چنانچہ اس کشادگی کا حجم سمیٹنے کا احمقانہ اور بدبختانہ فیصلہ کیاگیا اور جب یہ بدبختانہ فیصلہ کاموں کی تکمیل کے حوالہ سے اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گا تب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ انہیں کس خباثت میں جھونکا گیا ہے۔ بے شک سائیکل سواری کے لئے علیحدہ لائنوں کی ضرورت سے انکار نہیں لیکن کہاں اور کس سڑک کے حوالہ سے ؟ کیا ہمارے انجینئر حضرات یہ چھوٹا سا فہم بھی نہیں رکھتے۔ جس کشادہ سڑک پر پہلے ہی روز بروز ٹریفک کا دبائو بڑھ رہا ہو اور سڑک کو مزید کشادہ کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی اسی کو کشادہ کرنے کی بجائے سمارٹ پروجیکٹ کی آڑ میں کانٹ چھانٹ سے ہم کنار کیاگیا۔ یہ سب کچھ کس کیلئے ؟
سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے دائرے میں سرینگر شہر کے باقی ماندہ علاقے بادی النظرمیں نہیں لائے گئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر مل رہاہے کہ منتظمین کے مطابق شہر سرینگربلوارڈ اور سیکریٹریٹ تک جانے والے راستے تک محدودہے حالانکہ سرینگر سٹی کاحدود اربعہ فی الوقت زائد از ۲۵؍ کلومیٹر تک وسعت اختیار کرچکا ہے اور ہر سو پھیلا ہوا ہے۔ لیکن کام محض چند کلومیٹر کے دائرے میں ہورہاہے۔ سمارٹ پروجیکٹ سے فی الوقت تک باہر دوسری سڑکوں کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ ہر دس فٹ کے فاصلے پر سڑک کی ٹوٹ پھوٹ واضح طو رسے دکھائی دے رہی ہے۔ جن سڑکوں پر محض چند ماہ قبل میکڈم انجینئرنگ ڈویژن دو اور سوئم نے بچھادیا تھا اس کا کہیں وجود نہیں ہے۔ اس بے ایمانی اور بددیانتی اور مجرمانہ طرزعمل کاکوئی نہ کوئی تو ذمہ دار ہونا چاہئے ، کچھ حد تک تو کوئی جواب دہ ہونا چاہئے لیکن نہ جواب دہی کا تصور ہے اور نہ روایت، یہی کشمیر کا دوسراتیسرا عنوان بھی ہے!!