ٓ اسمبلی انتخابات کا جلد از جلد انعقاد اور ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ، ان پر سبھی سیاسی جماعتیں متفق ہیں لیکن انتخابات کے بعد جو حکومت تشکیل پائے گی اُس حکومت کے اختیارات کیا اور کس حد تک ہوں گے اس بارے میں قدر ابہام تو ہے لیکن اس ابہام کو گہرائی اور اُلجھنوں سے عبارت کرنے کا کردار جموں اور کشمیر نشین بعض سیاسی جماعتیں باہم متضاد بیان بازی کرکے اداکررہی ہیں۔ ان بیان بازیوں کے نتیجہ میں کشمیر اور جموں کی سیاسی افق ہی نہیں بلکہ عوامی سطح پر انتشار اورالجھنوں کا ایک نیا انبوہ جگہ پاتا جارہاہے۔
سید الطاف بخاری کی قیادت میں اپنی پارٹی نے یوم تاسیس کے موقعہ پر اس مخصوص اشو کو بھی ایڈریس کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ جو اسمبلی انتخابات کے بعد معرض وجودمیں آجائیگی اُس اسمبلی کے حد اختیارات میں آئین کی منسوخ شدہ دفعہ ۳۷۰، ۳۵ اے یا ریاستی درجہ بحال کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا علم اور جانکاری کشمیراور جموں کی ہر جماعت اور لیڈر شپ کو ہے لیکن اس علمیت کے باوجود کچھ لیڈر اور جماعتیں عوام کو گمراہ کرنے اور ان کے جذبات سے دانستہ کھلواڑ کرنے کی غرض سے یہ شوشہ چھوڑ رہی ہیں کہ اسمبلی اور حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی خصوصی پوزیشن کے حوالہ سے منسوخ شدہ آئینی دفعات کو بحال کرلیاجائے گا۔
عوام کے سامنے اصل زمینی اور حقیقی صورتحال اور معاملات کو صاف وشفاف اندازمیں پیش کرنا حقیقت پسندانہ اور دانشمندانہ اور دیانتدارانہ اپروچ ہے ۔ ایسا کرکے یہ ممکن ہے کہ وقتی طور سے کچھ ٹھوکریں کھانی پڑسکتی ہیں لیکن طویل المدتی عینک سے دیکھاجائے اور مشاہدہ بھی یہی ہے ایسا کرنا گھاٹے کا سودا نہیں رہتا۔ اسمبلی الیکشن کا بگل جب بھی بجایاجاتا ہے اور اس میدان میں جو لوگ بھی اپنی قسمت آزمائی کیلئے اُتر نے کے خواہش مند ہوں انتخابات کے بعد اسمبلی کی تشکیل اور اس حوالہ سے حکومت کی بھی تشکیل کے بعد ان کے حد اختیار میںکیا کچھ ہوگا یہ پہلے سے واضح ہوگا تواس میں حرج نہیں۔
اس بات سے اتفاق کرنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے کہ ماضی میںسیاسی جماعتیں اوران سے وابستہ لیڈر شپ جذباتی نعرے بلند کرکے عوام کے جذبات اور احساسات کو نہ صرف اُبھارتے رہے بلکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ عوام کو بعض سیاسی اور حساس نوعیت کے کچھ معاملات کے تعلق سے گمراہی کے راستوں پر بھی گامزن کرتے رہے۔ قرآن بھی ہاتھ میں لے کراس کا سہارالیاگیا، سبز پرچم کو بھی لہرایا جاتارہا، کوہستانی نمک کی ڈھلیوں کی بھی نمائش کی جاتی رہی، جموں وکشمیر کے منفرد تشخص کے تحفظ کو’’جنگ‘‘ تک قراردیاگیا۔ لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ یہ تمام نعرے خوش کن تو تھے لیکن گمراہ کن ثابت ہوئے، لوگوں کو سوا دھوکہ کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا!!
اس حوالہ سے یہ زمینی حقیقت بھی ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ ریاست کی تنظیم نو کے بعد کم وبیش سبھی اختیارات مرکز کی تحویل اور حد اختیارات میں چلے گئے ہیں۔ جو اختیارات خصوصی پوزیشن کے ہوتے ریاست کے تھے وہ اب نہیں رہے جبکہ رہے سہے اختیارات میں بھی ترمیم وتجدید کا سلسلہ جاری ہے اور یہ اختیارات مرکز کے ان قوانین سے ہم آہنگ یا اُن سے مطابقت کے ہم پلہ لائے جارہے ہیں جن کا یکساں اطلاق ریاستوں اور مرکز کے زیر کنٹرول علاقوں میں ہے ۔ جموں وکشمیر اب مستثنیٰ نہیں۔ اس حوالہ سے چیف سیکریٹری کی معیاد ملازمت میں ۳، ۶؍ماہ تک کی توسیع کا اختیار بھی اب مرکز کی تحویل میں دیئے جانے کی تجویز ہے جبکہ مرکزی سروسز آئی اے ایس ، آئی پی ایس وغیرہ میں جموں وکشمیرکیلئے ففٹی ففٹی کا کوٹہ کا تناسب گھٹا کر ۳۳:۶۷ فیصد کرنے کا حکمنامہ اب کسی بھی وقت منظرعام پر آیاہی چاہتا ہے۔
اس سارے تناظرمیں اپنی پارٹی کے صدر سید الطاف بخاری کا بیان کہ حقائق عوام کے سامنے رکھ کر ہی انتخابات میں شرکت کی جائے تاکہ لوگوں کی گمراہی کا کوئی پہلو نہ رہے حقیقت پسندانہ اور بروقت تصور کیاجاسکتا ہے۔ سیاسی اہداف اور پارٹی مفادات کے لئے جھوٹ بولنا، جھوٹ اور جذباتی نعروں کا سہارالینے سے بہتر یہی ہے کہ صاف وشفاف سیاست کا راستہ اختیار کیاجائے کیونکہ یہ راستہ اختیار کرنے سے مستقبل میں پھر کسی ہزیمت یا شرمندگی کا سامنا نہیں، لوگ گمراہی سے محفوظ رہتے ہیں اور فیصلہ کرنے میں انہیں آسانی ہوجاتی ہے، سچ اور جھوٹ میں تمیز کا راستہ بھی آسان ہوجاتا ہے جبکہ معاشرہ بھی تضادات کا شکار یا مبتلا ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ کشمیرکی سیاسی اُفق کے بہت سارے حساس اور پیچیدہ پہلو ہیں جو تہہ درتہہ بھی ہیں ۔ اس مخصوص سیاسی کلچر کو بڑھائوا دینے اور لوگوں سے اسی مخصوص کلچر پر سند قبولیت ثبت کرنے کی بھی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جاتی رہی، یہ مخصوص سیاسی کلچر فروغ پاتا رہا اور اس کے بطن سے ملازمانہ سیاست بھی جنم لیتی رہی۔ اسی ملازمانہ سیاسی کلچر نے بالآخر کشمیرکی سیاسی اور معاشی زبوں حالی کی بُنیاد رکھی جو بتدریج ان کی تباہی وبربادی پر ہی منتج ہوئی۔
اس تباہی وبربادی کے کھنڈرات سے ایک نیا کشمیر کی تعمیر کا آغاز ہوا جو ابھی اپنے ابتدائی ایام سے گذررہاہے۔ راتوں رات یہ ممکن نہیں اور نہ توقع کی جاسکتی ہے کہ سب کچھ آن واحد اور بیک جنبش قلم یا پلک جپتے خواہشات کے مطابق ہو، اس میں وقت درکار ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ صاف وشفاف سیاست اور قیام امن کے حوالہ سے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔