محکمہ تعلیم کی جانب سے ایک نیا حکمنامہ صادر ہوا ہے جس میں تمام پرائیوٹ تعلیمی اداروں سے کہاگیا ہے کہ وہ سماج کے کمزور طبقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کیلئے کم سے کم ۲۵؍ فیصد نشستیں داخلہ کے وقت مفت مخصوص کریں۔ یہ حکم نامہ اُن تعلیمی اداروں کے لئے ہے جنہیں حکومت نے لیز پر زمین الاٹ کی ہیں۔ اس تعلق سے محکمہ تعلیم کے متعلقہ زونل سربراہوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ حکم نامہ پر عملی جامہ پہنانے کی سمت میں ضروری اقدامات اُٹھائیں اور اُن تعلیمی اداروں کی فہرست مرتب کریں جو سرکاری اراضیوں پر قائم ہیں۔
حکمنامہ ایک اعتبار سے نیا نہیں بلکہ سماج کے کمزور اور غریب طبقوں کے بچوں کے لئے نشستیں مخصوص رکھنے اور بغیر کسی معاوضہ کی ادائیگی کے ان کا داخلہ یقینی بنانے کیلئے حکمنامہ پہلے سے موجود ہے نیا حکمنامہ اس اعتبار سے محض تجدیدی نوعیت کا ہے۔ بہرحال حکم نامہ کا خیر مقدم، لیکن اہم سوال اپنی جگہ بدستور موجود کہ کس پرائیوٹ تعلیمی ادارے نے اب تک پہلے حکم نامہ کے مطابق کمزور طبقوں کے بچوں کو مفت داخلہ دیا، جواب نفی میں ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ جواب حکومت کی علمیت میں بھی ہے، عوامی حلقے بھی جانکاری رکھتے ہیں اور خود تعلیمی اداروں کے منتظمین اور مالکان بخوبی جانتے ہیں کہ انہوںنے اُس سرکاری حکم نامہ کا کیا حشر کیا اوراب کی بار بھی جانتے ہیں کہ وہ کون سا طریقہ کار، حربہ یا ہتھکنڈہ اختیار کرکے اپنی روایتی من مانیوں پر گامزن رہتے کس طر ح سے نئے حکم نامہ کو بے عمل بنا کر اسے ردی کی نذر کرنا ہے۔
اس ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ جواب تلاش کرنے کیلئے زیادہ دور جانے اور نہ ہی زیادہ گہرائی میں جھانکنے کی ضرورت ہے، سابق ادوار میں برسراقتدار حکومتوں نے پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی سرپرستی کی، ان کی من مانیوں اور لن ترانیوں کو نذر انداز کیا، ہر سال فیس کی شرحوں میںاضافہ، بچوں کا داخلہ بھاری بھرکم نذرانوں کی وصولی، بس کرایوںکی شرحیں مقرر کرتے وقت لٹیرانہ اور استحصالانہ طریقہ کار خبر ونظر میں ہونے کے باوجود نہ حکومتی سطح پر تدارک کی سمت میں کوئی کارروائی عمل میںلائی جاتی رہی اور نہ ہی خود محکمہ تعلیم اس استحصالانہ طرزعمل کا سنجیدہ نوٹس لیتا رہا۔
یہ کوئی پوشیدہ راز نہیں کہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی اکثریت سرکاری اراضیوں پر قائم ہے لیز کے عوض محض چند کھوٹے سکے سرکاری خزانہ میںاداکرارہے ہیں۔ کانگریس کی سرپرستی میں ڈی پی ایس تعلیمی اداروں کی جوچین کشمیر میںنظرآرہی ہے کیا اُس نے آج تک اپنے قیام سے لے کسی کمزور طبقے کے بچے کو مفت داخلہ دیا، بلکہ تلخ ترین سچ یہ ہے کہ ہر سال نئے ایڈمیشن کے نام پر ہر بچے کے والدین سے ایک لاکھ اور ڈیڑھ لاکھ روپے کے درمیان ڈونیشن کی رقم بٹوری جارہی ہے لیکن کسی والد کوا س ادائیگی کی رسید نہیں دی جارہی ہے۔ اسی طرح اربوں روپے مالیت کی وسیع اراضی پر قائم دارالخلافہ کے قلب میں واقع دو مشنری اسکولوں کا طریقہ کار بھی ڈی پی ایس اور راج باغ اور سعید صاحبؒ کی زیارت کے قریب قائم دیگر دو مشنری سکولوں سے کچھ بھی مختلف نہیں۔
محکمہ تعلیم نے یہ نیا حکم نامہ صادر تو کیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس پر عمل درآمد ہوگا ، تجربہ اور مشاہدہ کی رئو سے جواب نفی میں ہے۔ آج تک محکمہ تعلیم کی طرف سے جاری کس حکمنامہ کو عملی جامہ پہنایاگیا، یہاں تک کہ ٹیکسٹ بکس اور یونی فارم کی دستیابی کے حوالہ سے جو حکمنامے اجرا کئے جاتے رہے ان پر سکولوں نے اس حد تک عملی جامہ پہنایا کہ اپنے احاطوں سے باہر مختلف علاقوں میں دکانیں اور بازار سجائے، جہاں والدین کو من مانی بلکہ بے حد گراں قیمتوں پر نصابی کتب اورشٹیشنری فروخت کی جارہی ہے۔
ممکن ہے کشمیر میں قائم سارے پرائیوٹ تعلیمی ادارے والدین کے جذبات اور چاہتوں کے حوالہ سے ان کا ستحصال یا زیادہ استحصال نہ کرتے ہوں لیکن بحیثیت مجموعی استحصال سبھی کررہے ہیں اور والدین اس استحصال کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اگر سرکاری اسکول منظم ہوتے، اسکولوں کے لئے عمارتیں تعمیر کرنے کیلئے اراضی دستیاب ہونے کے باوجود وقف کردی جاتی اور جدید طرز تعلیم سے سکولوں کو آراستہ کیاجاتا تو پرائیوٹ تعلیمی اداروں کا کوئی وجود نہ ہوتا اور اگر ہوتا بھی تو کم سے کم بچوں اور والدین کا استحصال نہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سرکاری سطح پر تعلیم وتربیت کو کسی ترجیح میں نہیں رکھاجارہاہے اگرچہ تعلیمی شعبے کے حوالہ سے بجٹ میں خطیر رقم مختص رکھی جارہی ہے۔ سرکاری اسکولوں کیلئے درکارسہولیات ، لائبریری کی دستیابی اور دیگر مطلوبہ سہولیات کو ملحوظ خاطر رکھنے کی کوئی روایت قائم کی گئی ہوتی تو یہ منظرنامہ مشاہد ہ میں نہ ہوتا جس کا مشاہدہ کیاجارہاہے۔
بہرکیف نیا حکمنامہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ضروری ہے کہ کوئی منضبط اور ٹھوس سسٹم کو وجود بخشا جائے اور مانیٹرنگ نظام کو بچوں کے داخلہ کے تعلق سے متعارف کرایاجائے۔ سکول کے منتظمین تو حلف نامہ بھی داخل کریں گے اور یقین دلاتے رہینگے کہ حکم نامہ کے مطابق ۲۰۔۲۵؍ فیصد بچوں کو مفت داخلہ دیاگیا لیکن میز کے نیچے سے ڈونیشن کی وصولیابیوں اور ڈیل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہے گا۔
سماج کے کمزور طبقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کا حکم نامہ کے مطابق داخلہ یقینی بنانے کی سمت میں ہر اسکول کیلئے محکمہ تعلیم اپنے آفیسروں کو نامزد کرسکتا ہے جو داخلہ عمل پر قریب سے نگاہ رکھ سکے۔ تمام پرائیوٹ تعلیمی اداروں کو مناسب آڈٹ یا اس سے ملتے جلتے طریقہ احتساب کے دائرے میں لانے کو لازمی قراردیاجائے۔یہ اور دوسر ے کئی اقدامات بھی اُٹھائے جاسکتے ہیں۔ بشرطیکہ نیا حکم نامہ کو محکمہ تعلیم کی دہلیز سے باہر لے جانے کی نیت ہو بصورت دیگر اس نئے حکم نامہ کو بھی ’حکم نواب تادر نواب‘ ہی قرار دیاجاسکتاہے۔