عید کی گہماگہمی بتدریج مدھم پڑتی جارہی ہے او ر لوگ اپنے اپنے روزمرہ معمولات کی طرف لوٹ رہے ہیں لیکن اس عید کے حوالہ سے کچھ سوداگروں، مفاد پرستوں، ناجائز منافع خوروں اور استحصالی عناصر کی سیاہ کاریوں اورسرگرمیوں نے عوام کے جذبات اور احساسات کو اپنی روایت کے مطابق چھلنی کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
کیا یہ کردار اور اخلاق کا فقدان ہے یا نفسیات کے حوالہ سے رگوں میں دوڑنے والے سرخ خون کی بجائے کسی اور ہی رنگ کا خون دوڑ رہا ہے ، کچھ قطعیت کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا ہے البتہ آئے روز جو کچھ بھی روزمرہ معمولات زندگی کے تعلق سے مشاہدہ میں آرہاہے وہ باعث تشویش بھی ہے، فکر مندی سے عبارت بھی ہے اور کچھ ایسے سوالات بھی پوچھ رہا ہے جن سوالات کی نوعیت کسی کُند چھرا سے کم نہیں۔
دوسرے کئی معاملات کو فی الحال حاشیہ پر رکھتے ہوئے ماہ صیام کی آمد آمد اور عیدیں باالخصوص عید الفطر کی متوقع آمد کے تعلق سے رویت (ہلال کا ظہور) کشمیری عوام کیلئے ہر دور اور ہرسال کسی نہ کسی اختلافات، شک وشبہات، تنازعات کے گھیرے میں لائی جارہی ہے۔ رویت کے حوالہ سے شریعت میں کوئی ابہام نہیں ہے، یہ واضح ہے ، چاہئے اس کی تلاش ننگی آنکھوں سے کی جائے یا دور جدید کی سہولیت کے تعلق سے دوربین کے سہارے ، شہادتوں پر خاص طور سے زور اوراصرار بھی لازمی ہے۔
کشمیر میں رویت کا اپنا کوئی قابل اعتبار اور قابل اعتماد سسٹم نہیں ہے اور نہ ہی سرزمین کشمیر سے تعلق رکھنے والے مفتیان کرام، علماء حضرات، خطیبوں، مشائخ حضرات، میرواعظان اور دوسرے وابستہ گان نے اس سمت میں آج تک کوئی پہل کی۔اس کے برعکس کشمیر کی سرحدی حدود سے باہر کی رویت کا خود کو غلام بنایا اور اسی رویت کو اپنے لئے حرف اول اور حرفِ آخر تصور کرتے رہے ، چاہئے رویت کی شہادت کا اعلان رات رات گئے سامنے آجائے یا اگلے دن روزہ داری کی حالت میں رویت کا اعلان یہ کہکر کیاجائے کہ دیر رات گئے رویت کی شہادت چونکہ موصول ہوئی ہے لہٰذا عید الفطر اب کی ابھی منائی جائے گی البتہ نماز عید اگلے دن ادا کی جائے گی۔ ایسے معاملات ماضی کی رویت کے حوالہ سے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
لیکن اب کی بار ہمارے مفتی اعظم کشمیر نے شریعت اور اخلاق کی تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے ایک بیان ریکارڈ کرایا جس میںوہ یہ اعلان کرتے سنے جارہے ہیں کہ’’آج ۲۰؍ اپریل ۲۰۲۳ء جمعرات شوال المکرم۱۴۴۴ء کو چاند نظرآنے کی کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی ہے، لہٰذا تمام علماء حضرات سے مشورہ کے بعد فیصلہ کیاگیا کہ عید الفطر ۲۲؍ اپریل ۲۰۲۳ء بروز سنیچر کو منائی جائیگی……‘‘
مفتی اعظم کا یہ ریکارڈ پیغام ۱۹؍ اپریل ۲۰۲۳ء کو عوام تک پہنچ گیا، ہر فرد حیران وششدر ، ایک دوسرے سے معلوم کرتے رہے کہ آج ۱۹؍ اپریل ہے یا ۲۰؍ اپریل ، اگر ۱۹ اپریل ہے تو مفتی صاحب نے کس شریعت اور اخلاقیات کی رئو سے چاند نظرنہ آنے کا بیان اپنے ساتھی علماء کرام کی مشاورت کا حوالہ دے کر ریکارڈ کرایا۔ یہ سراسر جھوٹ کیوں؟ کیا شریعت میں اس نوعیت کے لغو اور جھوٹ کی اجازت یا گنجائش ہے۔کیا شریعت کی رئو سے ۲۸؍ ماہ صیام کو ۲۹؍ پر تشبیہ دے کر خود اختراعی شہادتوں کا حوالہ دے کر نظر نہ آنے کا اعلان کیاجاسکتاہے؟
شریعت کے ساتھ یہ مجرمانہ کھلواڑ کیوں؟ مفتی اعظم اس حوالہ سے جواب دہ ہیں۔ اپنے جھوٹ اور خلاف شریعت اعلان اور فیصلہ پر کسی شرمندگی یا ندامت کا اظہار کئے بغیر مفتی اعظم یہ بیان جاری کررہے ہیں کہ وہ سائبر پولیس سے رجوع کرکے ان سے درخواست کریں گے کہ ان کے ریکارڈ بیان کو ایک دن قبل کس نے افشا کرنے کا جرم کیا، مفتی صاحب کوئی بھی قانونی کارروائی کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن انہیں یہ تو بتانا پڑے گا کہ انہوںنے کس بُنیاد پر ایک روز قبل ہی چاند نظرنہ آنے اور شہادتیں موصول نہ ہونے کا اعلان کیا اور اس اعلان کے لئے انہوںنے کن علماء حضرات سے مشورہ کیا تھا؟ بیان ریکارڈ دور درشن سرینگر نے اطلاع کے مطابق کیا ہے،
سوال یہ ہے کہ کیا دور درشن سرینگر مفتی صاحب کے اس خود اختراعی جھوٹ میں شریک نہیں، کیا دور درشن بھی عوام کے جذبات اور مذہبی احساسات اور شریعت کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ کا مرتکب نہیں ہوا؟یہ کہنا کہ چاند نظرآنے اور چاند نظرنہ آنے سے متعلق بیانات قبل از وقت ہی ریکارڈ کئے جاتے رہے ہیں بادی النظرمیں یہ اعتراف ہے کہ یہ جھوٹ ماضی یا عرصہ دراز سے بولا جارہا ہے۔
اگلے دن ۲۱؍ اپریل کو مفتی صاحب ایک اور اعلان کے ساتھ جلوہ گر ہوئے جس میں چاند نظرآنے کا اعلان کیاگیا اور علماء کرام کی ایک لمبی فہرست بھی اعلانیہ کے ساتھ منسلک کی گئی جنہوںنے بقول گرینڈ مفتی کے رویت کی شہادت دی یا شہادت موصول کی ۔ کیا یہ سارے حضرات پہلے والے اعلان جسے بدھ ۱۹؍ اپریل کو ریکارڈ کیاگیا تھا کے شریک تھے،یہ وضاحت طلب ہے!
مفتی اعظم صاحب ! آپ کو یہ عہدہ اور رتبہ وراثت میں نصیب ہوا ہے، اس میںعوام کی پسند ناپسند ، انتخاب وغیرہ کا کوئی عمل دخل نہیں،آپ یہ منصب اپنی چاہتوںاور خواہشوں کے مطابق استعمال کرنے میں آزاد ہیں لیکن کشمیر کے دیندار عوام کے جذبات، عقیدہ ، نظریات اور سب سے بڑھ کر شریعت کے تقاضوں کو پامال کرکے مجرمانہ کھلواڑ سے اجتناب کیا کریں۔
جس روز مفتی اعظم کا قبل از وقت چاند نظرنہ آنے کا ریکارڈ شدہ بیان وائرل ہوا تو محض چند لمحوں کے اندر اندر عوام کی جانب سے جو شدید ردعمل اور غم وغصہ سوشل میڈیا کی وساطت سے سامنے آتا رہا اس کا ملاحظہ کرکے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کشمیری عوام مفتی صاحب کو قابل اعتبار اور قابل اعتماد نہیں سمجھ رہے ہیں۔ لوگ اپنے احساسات اور جذبات کی تضحیک یا پامالی کو کسی حدتک تو برداشت کرسکتے ہیں لیکن شریعت کی بُنیادوں کوتہہ وبالا کرکے اور جھوٹ کا سہارا لے کر عوام کے جذبات کو مجروح کرنے کی دانستہ یا نادانستہ حرکت ان کے لئے ناقابل برادشت بھی ہے اور ناقابل قبول بھی۔