رواں مالی سال کی بجٹ تجاویز اور بیتے مالی سال کی بجٹ میں مختص رقومات کا محض سرسری جائزہ لیاجاتا ہے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ محدود مالی وسائل کے باوجود ہر سال بجٹ کا تقریباً ۴۰؍ فیصد ملازمین کی تنخواہوں، پنشن کی ادائیگی اور دوسرے متعلقہ شعبوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ باقی جو ۶۰؍ فیصد بجٹ ہاتھ میں آتی ہے وہ صحت عامہ، ترقیات، تعلیم ،فلاحی سکیموں ، ہائوسنگ وغیرہ شعبوں کیلئے مختص رہتی ہے۔
اس اعتبار سے دیکھاجائے تو جموںوکشمیر کیلئے بجٹ صحت مند نہیں ہے اور نہ ہی کسی حوالہ سے خود کفالت کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ اگر مرکزی سرکار امداد چاہئے وہ گرانٹ کی صورت میں ہویا کسی اور حوالہ سے ہو فراہم نہ کرے تو جموں وکشمیر کا سارا تانا بانا دھڑام سے زمین پر بوس ہوتا نظرآئے گا۔
اگر چہ مرکزی سرکاروں کی جانب سے جموںوکشمیر کو ماضی میں بھی مالی امداد فراہم کی جاتی رہی ہے اور جس امداد میں ہر سال اضافہ کیا جاتا رہا ہے لیکن بہت کم ثمرہ اوسط شہری تک پہنچ پایا ہے ۔ بے شک ترقیاتی کام ہوتے رہے، پروجیکٹ وضع کئے جاتے رہے، سکیمیں مرتب کی جاتی رہی بلکہ ہر شعبے کے حوالہ سے حرکت نظرآتی رہی لیکن مانیٹرینگ کا ہر دورمیں فقدان ہوتا رہا، احتساب کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی رہی، اگر عوامی سطح پر لوگ مختلف معاملات کے حوالوں سے اپنی ضروریات کے بارے میں شاکی بھی رہے، حکام کی توجہ مختلف طریقوں کو بروئے کار لاکر مبذول کرانے کی کوشش کرتے رہے لیکن وعدئوں اور یقین دہانیوں کے پہاڑ تو نظرآتے رہے البتہ عمل آوری کے حوالہ سے نہ عجلت کبھی رہی اور نہ ہی احتساب۔
۱۹۵۲ء سے ۱۹۷۵ء تک کانگریس بلا شرکت غیرے جموںوکشمیر میں برسراقتدار رہی ،ا س مدت کے دوران بخشی غلام محمد، شمس الدین عرف کٹھ، غلام محمدصادق اور پھر سید میر قاسم مسند اقتدار پر دہلی کی مکمل آشیرواد اور سرپرستی کے ساتھ براجماں رہے۔ یہ وہ دور ہے جس بارے میں عام تاثر عوامی اور سیاسی سطحوں پر یہی تھا کہ کورپشن ، بدعنوان طرزعمل، اقربا نوازی وغیرہ کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا، یہ حقیقت دہلی سے پوشیدہ نہیں تھی لیکن سیاسی اور وقتی مصلحتوں کی اندھی پٹیاں آنکھوں پر چڑھائے رکھی گئی۔ اس دور کے حوالہ سے جب مرحوم شیخ محمدعبداللہ نے اکارڈ کی روشنی میں اقتدار واپس حاصل کیا تو ایک تقریر کے دوران انہوںنے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ جموںوکشمیر میںہر ایک روپیہ میں سے ۷۵ پیسے کورپشن کے کھاتے میں جیبوں اور نجی تجوریوں کی زینت بن رہی ہیں۔
بہرحال ہر دورمیں کسی نہ کسی حوالہ سے کورپشن اور بدعوانیاں ہوتی رہی، اگر سیاسی سطح پر اور انتظامی سطح پر دیانتداری سے فرائض انجام دیئے گئے ہوتے تو لوگ سڑکوں پر سراپا احتجاج نظرنہ آتے، نہ جموں وکشمیرمیں بے روزگاری کا دیو سایہ فگن ہوتا، اور نہ ہی لوگوں کو آج کی تاریخ میں بھی معاشی او رمعاشرتی مسائل سے جھوجنا پڑتا۔
اس سارے منظرنامہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اب کچھ برسوں سے جو ترجیحات مقرر کی جارہی ہیں ان کا تعلق گڈ گورننس، بُنیادی سطح پر جمہوریت کے استحکام، زراعت کی نشوونما، صنعتی ترقی کیلئے سرمایہ کاری کی سمت میں سہولیات، روزگار کے مواقع پیدا کرنے ، ترقی کی رفتار میںتیزی لانے، خواتین کو بااختیار بنانے، سماجی سطح پر سب کا اشتراک اور اگلے پانچ سال میں جی ڈی پی میںاضافہ سے ہے ان سبھی شعبوں میں سے اگر روزگار کے حوالہ سے ترجیحی طور پر بات کریں تو بے شک یہ ایک بہت بڑا مگر پُر تشویش معاملہ ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ روزگار کی فراہمی کے حوالہ سے جواقدامات اُٹھائے جارہے ہیں ان کے مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ تین برس کے دوران ۸۷۔۱۵۴۷ کروڑ کی سرمایہ کاری ہوئی جس کے نتیجہ میں پانچ سو یونٹ قائم ہوئے۔ زائد از ۲۵؍ ہزار افراد کو ملازمت میںلیاگیا جس میں وہ ۲۵؍ سو افراد بھی شامل ہیں جنہیں جے کے بینک نے اپنی ملازمت میںلیا۔ زائد از دو لاکھ نوجوانوں کو سیلف روزگار سے متعلق مختلف سکیموں کے دائرے میںلایاگیا جبکہ گذشتہ مالی سال کا اس تعلق سے نشانہ دو لاکھ ۳۷؍ ہزار تھا البتہ رواں مالی سال کے لئے نشانہ تین لاکھ رکھاگیا ہے۔
بے روز گاری کے تعلق سے مختلف اعداد وشمارات سامنے آرہے ہیں جو باہم متصاد بھی ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بے روزگار ی کا شرح تناسب ۷؍فیصد سے بھی گھٹ چکا ہے لیکن ایک مرکزی ادارہ کی طرف سے ہر ماہ جو اعداد جاری کئے جارہے ہیں اس کا دعویٰ ہے کہ جموں وکشمیرمیں بے روزگاری کا شرح تناسب ۲۵؍ فیصد کے آس پاس ہے۔ بہرحال جو کچھ بھی اس حوالہ سے اصل منظرنامہ ہے وہ بدل سکتا ہے اگر سروسز سلیکشن بورڈ بدعنوانیوں اور مبینہ غلط طریقہ کار کے نتیجہ میں مختلف محکموں سے وابستہ سلیکشن لسٹوں جنہیں کالعدم قراردیاگیا ہے کی جگہ نئی بھرتی عمل میں تیزی لاسکے اور خو دکو متحرک کرے۔
سیاحت کا شعبہ لاکھوں افراد کو بلواسطہ اور بلاواسطہ روزگار فراہم کررہاہے ۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران سیاحت شعبے کا جو احیاء ہوا وہ اطمینان بخش ہے، اوسطاً ہر ماہ اڑھائی لاکھ سیاح واردِ کشمیر ہوتے رہے جبکہ گذشتہ سال کے دوران بحیثیت مجموعی ایک کروڑ پچاس لاکھ سیاح جن میںیاتری بھی شامل تھے جموںوکشمیرمیں واردِ ہوئے۔ اس شعبے کو مزید وسعت دے کر ترقی کے نئے زینوں پر استوار کرنے کی سمت میں جو کوششیں ہورہی ہیں توقع ہے کہ اگلے چند برسوں میں یہ شعبہ تمام تر دوسرے شعبوں سے آگے نکل جائے گا۔
اس توقع یا اُمیدکی بُنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف سرینگر جموں شاہراہ کو وسعت دی جارہی ہے بلکہ شاہراہ پر ۷x۲۴ ٹریفک کی نقل وحمل کو یقینی بنانے کیلئے متعدد نئے پروجیکٹوں پر کام جاری ہے جن میں بائی پاس، نئے پُل اور ٹنلوں کی تعمیر خاص طور سے قابل ذکر ہے جبکہ یہ توقع بھی کی جارہی ہے کہ اس سال کے آخیر تک وادی کا ریل کے ذریعے جموں کے ساتھ رابطہ قائم ہوجائے گا۔ البتہ جموںوکشمیر کے مفادات کو مختلف ہوائی کمپنیوں کے ہاتھوں مسلسل زک پہنچ رہا ہے کیونکہ سرینگر اور جموں کے آدھ گھنٹے کی مسافت اوردہلی سرینگر کے درمیان ہوائی مسافت کیلئے حد سے زیادہ کرایہ وصول کئے جارہے ہیں۔ کشمیر ٹریڈ اینڈ ٹرویول اور دوسرے اداروں کی جانب سے مسلسل اپیلوں کے باوجود ہوائی کمپنیوں کی ناجائز منافع خوری پر قدغن لگانے کیلئے کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔