جنوبی ایشیاء سے باہر قدم رکھتے ہوئے چین اب مشرقی وسطیٰ میںداخل ہوا اور اس سارے خطے میں گذشتہ زائد از نصف صدی سے جاری امریکی دبدبہ اور اثرورسوخ کو ایک بہت بڑا چیلنج دے رہاہے۔ کچھ عرصہ قبل تک چین کو اس خطے کے بیشتر ممالک ایک عفریت تصور کررہے تھے چنانچہ وہ یا تو روس کی جانب مائل نظرآتے یا امریکی اتحاد کا حصہ بننے کو ترجیح دے رہے تھے کیونکہ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ امریکہ فوجی اور اقتصادی اعتبار سے ایک سُپر پاور سمجھا جارہا تھا جبکہ چین کو محض افرادی قوت کے تناظرمیں دُنیا کا سب سے بڑا آمرانہ ملک تصور کیاجاتا رہا۔
لیکن اچانک چین نے کروٹ لی، نہ صرف اپنے ہمسایہ ملکوں کی ترقی اور اقتصادی نشونما کی جانب توجہ دے کر ان ممالک میں بڑی بڑی سرمایہ کاری کرتا رہا اور اب سالہاسال سے ایک خاموش کردار اداکرتے ہوئے چین نے اقوام عالم کو اس وقت حیرت میں ڈالدیا جب چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان سالہاسال کی کشیدگی اور سردوگرم جنگی حالت میں رہنے کے بعد آپسی تعلقات بحال کرنے کا مژدہ سامنے آگیا۔
عالمی سطح پر ناقدین، مبصرین، سیاسی ودفاعی تجزیہ کار ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کو آج کی تاریخ کاایک بڑا انقلاب ، جو خاموشی کے ساتھ پروان چڑھا یاگیا، قرار دے رہے ہیں جبکہ چین اس اہم مصالحتی کردار کی ادائیگی کے ساتھ ہی اپنے ماتھے پر چپکی عفریت کی لیبل نہ صرف ہٹانے میںکامیابی حاصل کی بلکہ امریکہ ایسے سپر پاور کیلئے نئے چیلنج بھی پیدا کردیئے ہیں۔ اگر چہ ابھی ابتداء ہے اور آنے والے وقت میں کچھ بھی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ کچھ دائو پیچ بروئے کار لاتے ہوئے باز ی پلٹ کر پھر سے اپنے حق میں توازن بحال کرسکتا ہے ۔ لیکن ایسی کسی امکانی صورتحال کا عہدہ برآں ہونے کیلئے چین بھی خاموش تو نہیں رہ سکتا ۔
ایران اور سعودی عربیہ کے درمیان تعلقات کی بحالی کے دور رس نتائج اور اثرات ہوں گے۔ فوری اثرات کے حوالہ سے یمن میں سعودی عرب اور حوثی باغیوں کے درمیان جنگ بندی پر کام شروع ہوا،روس کو ساتھ لے کر چین یوکرین میںجنگ ختم کرنے میں کوشاں ہے، جبکہ ایران سعودی تعلقات میںبہتری کے مثبت اثرات عراق، شام ،لبنان اور سب سے بڑھ کر اسرائیل کے حوالہ سے بھی متوقع ہیں۔
چین کے اس بڑھتے اثرورسوخ اور بیک وقت متعدد ایشیائی اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعاون اور اقتصادی اشتراک کے تناظرمیں چین کی ہمسائیگی میںہندوستان ، بنگلہ دیش اور پاکستان کی جانب نگاہیں اُٹھتی ہیں اور توجہ مبذول ہونا فطری ہے۔ چین اور ہندوستان کے درمیان اب ایک مدت سے سرحدی تنازعہ جاری ہے جبکہ ابھی کچھ ہی دن قبل چین نے دراندازی کرتے ہوئے ان کئی علاقوں کے نام تبدیل کردیئے جو ہندوستان کے حصے ہیں۔ اس تناظرمیں جبکہ چین خطے سے باہر پیش قدمی کررہاہے کیا وہ اپنی ہمسائیگی سے بے فکر ہوسکتا ہے ، جواب بظاہر نفی میںہے اور یہی محسوس ہورہاہے کہ اب چین اپنے وسیع توسیعی پیش قدمی کے تناظرمیں ہندوستان کے ساتھ اس تنازعہ کا کوئی باوقار حل تلاش کرنے کی کوشش کرے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اس تعلق سے امریکہ اور چند ممالک پرمشتمل اتحاد کس طرح اور کس حکمت عملی کے ساتھ خود کو ہندوستان کی پشت پر نظرآئیں گے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان اور چین کے درمیان گہرے تعلقات ہیں اور چین پاکستان کی معاشی بدحالی اور فی الوقت متعدد بحرانوں سے باہر نکالنے کی سمت میں ہر ممکن مدد فراہم کررہاہے۔ لیکن مبصرین کے مطابق بلکہ خود پاکستان کے اپنے معتبر حلقے یہ سوال کررہے ہیں کہ کب تک …! کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ عمران دور حکومت میںچین پاکستان کے تعلقات کو بڑا دھچکہ لگ گیا اور سی پیک عملاً روک دیاگیا۔ پاکستان کی موجودہ حکومتی قیادت چین کو یقین دلانے کی مسلسل کوشش کررہی ہے کہ نہ صرف سی پیک پر کام جاری رہے گا بلکہ آپسی تعلقات کو ایک نئے اعتماد کے ساتھ مستحکم ومضبوط بنایاجائے گا لیکن پاکستان کے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین نیا رشتہ استوار کرنے کیلئے تیار ہے البتہ عمران خان کے حوالہ سے اسے بہت سارے تحفظات ہیں کیونکہ چین کی قیادت عمران کو امریکہ کا خطے باالخصوص پاکستان کے حوالہ سے ایک اسٹرٹیجک پارٹنر تصورکررہاہے۔
بہرحال چین بنگلہ دیش ، سری لنکا اور نیپال میںبڑی تیزی سے اپنے قدم جماتا جارہا ہے ۔ یہ ساری پیش قدمی دُنیا کے نقشے پر کیا ایک نئے ورلڈآرڈر کے جنم پانے کے عندیے ہیں یا محض مفروضہ یا ملکوں کی نئی صف بندی تیسرے عالمی جنگ کی بُنیاد رکھے گی فوری طور سے کچھ قطعیت کے ساتھ کہا نہیں جاسکتا البتہ جنوبی ایشیاء سے نکل کر مشرقی وسطیٰ کا جہاں تک تعلق ہے کھیل امریکہ کے ہاتھوں سے چھوٹتی نظرآرہی ہے ۔ اس سارے کا سب سے بڑا فائدہ ایران کو پہنچ سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے حواری ملکوں کے اندر عیاں اور پوشیدہ کارروائیوں سے فراغت پاکر خطے میں اپنی پوزیشن اور قوت کو مستحکم کرنے کی جانب متوجہ ہوگا۔
سعودی عرب اگرچہ اقتصادی اعتبار سے ایران کے مقابلے میں بہت خوشحال ،خود کفیل اور مسلم ورلڈ کے حوالہ سے زیادہ اثرورسوخ رکھتاہے لیکن ایران کے ساتھ مسلسل مخاصمت اس کی صحت کو منفی طور سے متاثر کررہی تھی۔سعودی عرب اس مخاصمت سے باہر آکر راحت کی سانس لے سکتا ہے البتہ امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کسی نہ کسی تعلق سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ امریکہ اب تک سعودی عرب کو ایران کے ساتھ محاذآرائی کے تناظرمیں فوجی حرب وضرب سے لیس کررہا تھا ۔لیکن اب ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے بعد منظرنامہ تبدیل ہونے کا غالب امکان ہے ۔یہی وہ مخصوص منظرنامہ ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے لئے آنے والے دنوں میں درد سرکا موجب بن سکتا ہے۔