کشمیر اور جموں پر مشتمل جموں وکشمیر یوٹی کے رہائشیوںکو فی الوقت جن ڈھیر سارے اقتصادی ،معاشرتی اور زندگی کے مختلف شعبوں کے تعلق سے سنگین نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ان پر غور کرنے او رکوئی مشترکہ لائحہ عمل روڑ میپ کی صورت میں وضع کرنے کیلئے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے سرپرست ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جموں میں اپنی رہائش گاہ پر آل پارٹی میٹنگ طلب کی جس میںکئی پارٹیوں نے شرکت تو کی لیکن جو توقعات عوامی حلقوں کی طرف سے وابستہ کی جارہی تھی وہ توقعات پوری ہوتی نظرنہیں آئی۔
اجلاس میں بات ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ دہلی جاکر الیکشن کمیشن سے ملاقات کرکے جموں وکشمیرمیں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیاجائے جبکہ سرکردہ پارٹی لیڈروں کے ساتھ ملاقات کرکے ان سے ریاستی درجہ کی بحالی کے مطالبے میں ان کی توثیق اور حمایت حاصل کی جاسکے۔ اجلاس میں جائیداد ٹیکس کے نفاذ، اراضی سے بے دخلی اور بلڈوز ر کا استعمال، سروسز سلیکشن بورڈاور ایپ ٹیک کے حوالہ سے معاملات، بے روزگار نوجوانوں کی روزگار سے محرومی ایسے حساس نوعیت کے معاملات پر غور وخوض کیاگیا۔
نیشنل کانفرنس کے سرپرست نے اجلاس میں شرکت کی دعوت کس کو دی تھی اور کس کو نہیں، لیکن جوپارٹیاں شریک اجلاس رہی ان سے قطع نظر کئی سرکردہ پارٹیوں کی عدم شرکت کو عوامی سطح پر سنجیدگی سے لیاگیا جبکہ کچھ حلقوں نے اس اجلاس کو اس حوالہ سے مایوس کن اور فلاپ قراردیا۔
اجلاس میں پی ڈی پی کے نمائندے نے شرکت کی لیکن محبوبہ مفتی جموں میں موجود ہونے کے باوجود خود اجلاس میں شریک نہیں ہوئی، اپنی پارٹی ، پیپلز کانفرنس ، غلام نبی آزاد، چودھری لال سنگھ اور بی جے پی نے بھی آل پارٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ اس طرح آل پارٹی میٹنگ کے نام پر منعقدہ شو کو غیر فعال، بے نتیجہ اور بے اثر قرار دیاجارہاہے۔
جن پارٹیوں نے شرکت نہیںکی، انہیںشرکت کی دعوت دی گئی تھی کہ نہیں، قطع نظر اُس کے ہر پارٹی انہی اشوز پر چیخ رہی ہے اور چلا رہی ہے، جبکہ ان میں سے کچھ ایک معاملات کے حوالہ سے یہ بلند بانگ دعویٰ بھی کیاجارہاہے کہ ’ہم نے پہل کی اور نئی دہلی کی قیادت کو فیصلے واپس لینے یا لئے گئے فیصلوں پر عوام کے مجموعی مفادات میں نظرثانی پر آمادہ کیا۔‘ اس بات سے بھی قطع نظر کہ اس نوعیت کے دعوئوں میںکتنی صداقت ہے اور کس حد تک گوبلز کے سے اپروچ کا عمل دخل ہے، سنجیدہ عوامی اور سیاسی حلقے اس بات پر حیران ہیں کہ ہر پارٹی اشوز کے حوالہ سے ایک جیسا نظریہ رکھتی ہے لیکن اکٹھے مل بیٹھ کر ان کا حل تلاش کرنے ، حل تلاش کرنے کی سمت میں کوئی متفقہ روڑ میپ اختیارکرنے یا ان مجموعی اشوز پر دہلی جاکر آپس میں متحدہوکر مرکزی قیادت سے بات کرنے کیلئے آمادہ نہیں ،کیا یہ پارٹیوں کا دوہرا پن نہیں۔
لیکن تمام تر توجہ، تمام تر توانائی اور تمام ترچیخ وپکار، اگر ہم اقتدارمیں آئے تو وہ سارے قوانین اور اقدامات کالعدم قرار دیئے جائیں گے جو ایڈمنسٹریشن کی جانب سے اُٹھائے جارہے ہیں۔ لوگوں کے سامنے غلط بیانی کرکے مختلف حساس نوعیت کے اشوز پر انہیں گمراہ کیاجارہاہے اور ان کے جذبات اور احساسات کا استحصال کرنے کیلئے کچھ نئے طریقے اور راستے استوار کئے جارہے ہیں ۔ سمجھ میں نہیںآرہا ہے کہ جو لوگ ان پارٹیوں کے جلسوں میں شریک ہوکر گھنٹوں اپنا قیمتی وقت ضائع کررہے ہیں کیا انہیں یہ علم نہیں کہ جن اشوز کو لے کر بلند بانگ دعویٰ کئے جارہے ہیں ، نئی یقین دہانیاںدی جارہی ہیں یا جذبات کو اُبھارنے کیلئے نئے خوشنما نعرے اختراع کئے جارہے ہیں ان کی زمینی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ کیوں جلسوں میں کوئی شریک کھڑا ہوکر ان سے سوال نہیں کررہاہے؟ کیوں یہ سارے مجمعے بھیڑ بکریوں کا سا ریورڈ کی طرح خود کو انہیں ہنکانے کی اجازت دے رہے ہیں۔
کیا لوگوں کو معلوم نہیں، کہ جب کشمیر کی سیاسی اُفق پر ’’الہ کرے گا وانگن کرے گا‘‘ کی راگنی کے الاپ پر گلہ پھاڑ پھاڑ کر بانڈہ پاتھر یا دوسرے سہل لفظوں اور اصطلاح میں ہجڑوں کے طرز پر کشمیرکے طول وارض سے مناظر دیکھنے کو مل رہے تھے تو ان الہ وانگن کے نتیجہ میں عوام کے ارمانوں اور دیرینہ آرزئوں کا جو حسرت ناک حشر نتائج کی صورت میں سامنے آیا اور مابعد بھی آتے رہے کیا اُن کی ٹیس ان جلسوں میں بیٹھے لوگ خود پر نہ سہی لیکن اپنے گرد وپیش میں بھی محسوس نہیں کرتے! حیرت ہے؟
یہ بے حسی کب تک؟ کب تک ابن الوقت سیاست دانوں کے جھوٹے وعدوں اور خوش نما نعروں سے گمراہ ہوکر لوگ اپنے آپ کا استحصال کراتے رہینگے۔ کیا الیکشن کے انعقاد سے پہلے لوگوں کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کی سمت میں توجہ مبذول کرنا گناہ عظیم یا جرم کبیر ہے ؟ پھر کیا کوئی ایسی پارٹی ہے جو الیکشن سے قبل آج کی ہی تاریخ میںاپنے بارے میں یہ ضمانت دے سکے گی کہ الیکشن جب بھی ہوں گے ، اقتدار اور کرسی ہمارا ہی مقدر ہے۔ جبکہ زمینی سطح پر تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ کشمیرکاووٹ تقسیم درتقسیم ہوچکا ہے اور یہ تقسیم جن نظریات کی مرہون منت ہے، خدا کرے وہ غلط ثابت ہوں، لیکن اگر واقعی ان میں کوئی حقیقت ہے تو کشمیر کی سیاسی تباہی مستقبل کے حوالہ سے مقدر بن چکی ہے۔
فاروق عبداللہ کا نظریہ، اپروچ ، عقیدہ جوکچھ بھی ہے ان کے ساتھ اختلافات کی گنجائش ہے لیکن اس کے باوجودحرج کیاتھا کہ اگر مختلف نظریات کی حامل پارٹیاں عوام کے وسیع تر مفادات میں اجلاس میں شرکت کرتی۔ کیا جموں نشین پنتھرز پارٹی، عام آدمی پارٹی کا ترنجیت سنگھ ٹونی، ڈوگرہ صدر سبھا کا گل چین سنگھ چرک، بھال ٹھاکرے شیو سینا سے وابستہ منیش ساہنی اور مشن سیٹیٹ ہڈ کے صدر سنیل ڈھمپل فاروق عبداللہ کو اپنا سیاسی گرو سمجھتے ہیں یا ان سے والہانہ عقیدت اور محبت رکھتے ہیں، غالباً نہیں البتہ ان لیڈروں نے اپنے عوام (جموں) کے وسیع تر مفادات اور حقوق کے تحفظ کی خاطر آل پارٹیز اجلاس میں شرکت کی اور معاملات پر غور وخوض کرنے پر متفقہ فیصلہ کرلیا کہ مرکزی قیادت سے ملاقات کرکے معاملات کی سمت میں کوئی باوقار حل تلاش کریں۔
لیکن کشمیر نشین چند سیاسی پارٹیوں نے آپسی ’’پِتر حسد‘‘ کی روایت کو اپنے اپنے گلے کا ہار بناکر اجلاس سے دور رہنے کا ہی راستہ اختیار کیا جو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بدبختانہ فیصلہ اور معاندانہ اپروچ ہے جو کشمیر کو مزید زک اور شدید نقصانات سے ہم کنار کرنے کا بھی موجب بن سکتاہے۔