ہفتہ, اپریل 1, 2023
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

بے باک صحافت دم توڑ رہی ہے

مائیک اور کیمرہ ہاتھ میں، گلے میں پہچان پتر صحافت نہیں

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2023-02-23
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

منشیات: کشمیر پر منڈلاتاسنگین خطرہ

رویت تو بہت دور کی بات

ٍ کبھی کسی زمامے میں صحافت کو مقدس پیشہ تصور کیاجارہاتھا۔ بے باک اور بے داغ صحافی کو قوم ومعاشروں کا حقیقی ترجمان اور حسن غم خوار سمجھا جارہاتھا۔ قوموںکی آزادی، تہذیب وتمدن، زبان وادب اور معاشرتی اقدار کے تحفظ کا ضامن قرار دیا جاتا تھا، عالمی تاریخ گواہ ہے کہ صحافیوں نے مختلف ادوار میں اپنی قوموں کی گردنوں کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے میں اہم کردار اداکیا۔اس حوالہ سے زیادہ دور یا زیادہ ماضی کی گہرائیوں میں جانے اور جھانکنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے سامنے انگریزسامراج کی غلامی سے نجات دلانے میں بر صغیر کے متعدد صحافیوں نے جو کردار اداکیا ہے وہ برصغیر کی تاریخ کا ایک ان مٹ حصہ ہے۔
جموں وکشمیر کے تناظرمیں دیکھیں تو اس تعلق سے جموں کے صراف خاندان باالخصوص ملک راج صراف، کشمیرسے پنڈت پریم ناتھ بزاز کے علاوہ اپنے اپنے ادوار کے کئی صحافیوں نے ناقابل فراموش خدمات اور رول ادا کیا۔ لیکن اب نہ وہ صحافت ہے اور نہ اُس پاپہ کے صحافی … اس میں دو رائے نہیں کہ گذرے پچاس ستھر برسوں کے دوران صحافت کے شعبے نے اپنے دوسرے ہم عصر شعبوں کے شانہ بہ شانہ جدید ترقی کے منازل طے کئے۔ پرنٹنگ شعبے میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں آئی، مواد کے انتخاب میں معیار کے کچھ نئے پیمانے مقرر ہوئے، انٹرنیٹ نے تمام تاریکی کے پردوں کو تار تار کرکے صحافت کو ایک نئی روپ ریکھا عطاکی، لیکن ترقیات کے یہ اور دوسرے بہت سارے منازل طے کرنے کے باوجود خود صحافی کا قلم کند پڑ تا گیا، تحقیقی صحافت کے حوالہ سے اس کی جستجو دم توڑ رہی ہے، صحافی آج کی تاریخ میں کاپی پیسٹ روبوٹ بن گیا ہے۔
مائیک اور کیمرہ اس کی ذہنی اور علمی صلاحیت بڑی تیزی کے ساتھ چھین رہا ہے، سطحی نوعیت کے اشو سے لے کر حساس نوعیت کے کسی معاملے کے حوالہ سے اس کا سوال بے پرکی سمت کا مضحکہ خیز اظہار ہی نہیں بلکہ غیر سنجیدگی ، غیر ذمہ دارانہ اور غیر حساسیت کا ایک ایسا امتزاج بن رہا ہے کہ اب عقل بھی معاوف ہورہی ہے۔ اس کی ایک ادنیٰ سی مثال اگلے روز دہلی میں اس وقت سامنے آئی جب ایک ممبر پارلیمنٹ اپنی رہائش گاہ پر کچھ عرصہ سے پتھرائو کے معاملے پر پریس کو بریف کررہا تھا کہ ایک نامہ نگار نما صحافی نے ممبر پارلیمنٹ سے سوال کیا کہ ’’ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ بندروں نے اس کے مکان پر پتھر برسائے ہوں‘‘۔ اس پرممبر موصوف زیر لب ضرور مسکرادیئے لیکن اپنی مسکراہٹ کو دباتے ہوئے طنز بھرے اندازمیں نامہ نگار کو بتایا کہ ’’یہ بندر اپنے کسی مالک کے حکم پر ہمارے گھر پر پتھر پھینک رہے ہیں بھارت جمہوری ملک ہے اس کے دُشمنوں میں بندر بھی ہیں۔ اس بندر کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ کس کو پتھر پھینکنا ہے اور کس کو نہیں،واقعی بندر اپنے مالک کا بہت بڑا وفادار اور فرمانبردار ہے‘‘۔
ہندوستان ہی کیا پورے برصغیر ہندپاک اس افلاس زدہ ، بصیرت اور فہم وادراک سے محروم صحافی یا نامہ نگار نما افراد کی صفوں سے بھرا ہے۔ مائیک اور کیمرہ ہاتھ میں اُٹھا کر اور گلے میں کسی ادارے کا پہچان پتر آویزان رکھ کر یہ سمجھا جارہاہے کہ بس صحافی بن گیا، یہی وہ اہم بلکہ بُنیادی وجہ ہے کہ جس کے چلتے صحافت کا پیشہ مقدس زینے سے لڑھک کر فرش پر تو آگیا لیکن ان افراد نے ساتھ ہی جہاں گلیمرکاچولہ بھی پہن لیا وہی ساتھ ہی اس کے ذہنی بطن سے زرد صحافت‘ بلیک میلنگ، کردارکشی اور بہت ساری بدیوں کے راستے بھی جنم پاتے گئے۔
کشمیر کی صحافتی اُفق کے حوالہ سے بھی کچھ کچھ اسی سے ملتا جلتا منظرنامہ نظرنواز ہورہا ہے۔ حالیہ چند برسوںکے دوران کئی صحافی نما پیشہ ور بے نقاب ہوتے رہے، کوئی جنسی سکینڈل کا سرغنہ نکلا، کوئی لوگوں کو ڈرا دھمکا کر بلیک میل کرنے کے شر میں ملوث پایاگیا، اس تعلق سے مفصل ریکارڈ پولیس کے پاس ہے۔
تاہم اس بات کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ صحافت کو مختلف پہلوئوں سے تنزل سے ہم کنار کرنے میں جہاں خود’پھیر ڈرائیور نما خود ساختہ صحافیوں ‘کا اہم کردار رہا ہے وہیں مخصوص ذہنیت کے حامل اور مختلف سیاسی نظریات سے وابستہ سیاسی مہرے بھی بہت ذمہ دار ہے جو اپنی سیاسی انانیت کے اندھے گھوڑوں پر سوار سرپٹ تو دوڑ رہے ہیں لیکن جو صحافت کو اپنی دولت، اپنے دبدبہ ، اپنے اختیارات اور اپنی آمریت کے بل پر لتاڑنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ انہیں اپنی بدزبانی پر فخر ہے اور اپنے کرایہ دار اور اپنے عشق میں مبتلا اندھے حامیوں کے زور بازو پر بھی ناز ہے۔
اس تعلق سے اُس پار کشمیر کے میڈ ان بنی گالہ وزیراعظم رانا تنویر الیاس کے متکبرانہ انداز اور اختیارات کے دبدبہ سے سرشار بدزبانی کا منہ بولتا مظاہرہ گذرے ہفتے کے دوران ایک تقریب کے حاشیہ پر اس وقت سامنے آیا جب ایک صحافی کے سوال کا جواب دینے کی بجائے صحافی کے ماں بہن کی گالیاںبک کر برسرمحفل اُسے راء کا ایجنٹ قرار دیا۔ صحافی کا چھوٹا سا سوال یہ تھا کہ تقریب میں وزیرخارجہ شریک کیوں نہ ہوئے ۔ لیکن خود ساختہ وزیراعظم کے تکبر نے اس کی زبان کو راء کی دہلیز پر اپنا سر ٹپکنے پر لاکھڑا کردیا۔
اصل مسئلہ آج کی دُنیا کا یہ ہے کہ جمہور اور جمہوریت پرستی کے دعویدار سیاستدان اور بعض ملکوں کے حکمران صحافت پر اس وجہ سے حملہ آور ہیں اور دھونس دبائو اور دھمکیوں کے ساتھ قتل کرنے تک کا راستہ اختیار کررہے ہیں تاکہ ان کا دبدبہ بنارہے اور کوئی ذمہ دار اور حساس صحافی اس کے گناہوں اور جرائم کو بے نقاب کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔ سعودی صحافی خاشقجی اور فلسطینی خاتون صحافی شیرین اُبو عاقلہ کی ہلاکتوں کے معاملات تو ابھی کل ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ یہ محض دو معاملات کی نشاندہی ہے۔ ایسے درجنوں معاملات اور واقعات دُنیا بھر کے حوالوں سے مشاہدے میں ہیں۔
تصویر کا ایک اور رُخ یہ بھی ہے کہ صحافیوں کی عالمی تنظیم کی طرف سے جاری ہر سالانہ رپورٹ میں اُن تعزیزی معاملات کا تفصیلی خاکہ اجرا ہوتا رہا ہے جن کا تعلق سٹیٹ اور اس کے اداروں کی جانب سے ذمہ دارانہ طرز صحافت سے وابستہ صحافیوں کی پکڑ دھکڑ ،ہراسگی، حقوق کی سلبی اور دوسرے سفاکانہ طرز سے عبارت ہوتے ہیں۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم کی جانب سے ہر سال آزادی صحافت کے تعلق سے ایک گوشوارہ درجہ بندی کے حوالہ سے اجراء کیاجارہاہے، اس کا محض سرسری جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ کس ملک میں آزادی صحافت کا احترام مقدم سمجھا جارہاہے اور کن کن ممالک میں آزادی صحافت کی کوئی ضمانت نہیں۔
بہرحال صحافت کے حوالہ سے کئی دوسرے بھی پہلو ہیں جن کا احاطہ کئے بغیر اس منظرنامہ کو اچھی طرح سے سمجھا نہیں جاسکتا۔ ان میں اداروں کی اپنی معاشی حالت، ادارتی ڈھانچہ کی استعداد اورعدم دستیابی ، افرادی قوت کا حصول، عوام کو درپیش معاملات اور مسائل کو ان کے سیاق وسباق میں سمجھتے ہوئے ان کی ترجمانی کا حق ادا کرنے یا انہیں مصلحتوں کے تابع رہ کر نظرانداز کرکے دوسرے غیر ضروری معاملات کی دانستہ تشہیر وغیرہ شامل ہے۔

Related

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

جاوید اختر کی بے باکی

Next Post

کوہلی نے ’فیلڈز آف ڈریمز‘ پروجیکٹ کی جم کر تعریف کی

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

منشیات: کشمیر پر منڈلاتاسنگین خطرہ

2023-04-01
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

رویت تو بہت دور کی بات

2023-03-30
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

یہ وہ کشمیر نہیں جو ہمیں ورثہ میں ملا تھا

2023-03-29
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اُردوؔ محبت کی زبان ہے تعصب کی نہیں

2023-03-28
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

الیکشن:نئی سیاسی صف بندی

2023-03-26
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

محبوبہ جی کا غلط فیصلہ

2023-03-25
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

منفرد بجٹ، ایک منٹ کی تقریر

2023-03-24
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

سرمایہ کاری کا خوشگوار آغاز

2023-03-21
Next Post
وراٹ نے خود ونڈیز کے دورے سے وقفہ لینے کا فیصلہ کیا تھا

کوہلی نے ’فیلڈز آف ڈریمز‘ پروجیکٹ کی جم کر تعریف کی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

error: مواد محفوظ ہے !!
This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.