قاہرہ//
مصری حکام نے کہا ہے کہ مصر نے یروشلم اور مغربی کنارے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور رمضان کے مقدس مہینے کے آغاز سے قبل غزہ کی پٹی میں تشدد کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ثالثی کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
مصری حکام نے اس ہفتے قاہرہ میں حماس اور اس کے فلسطینی اتحادی اسلامی جہاد کے رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس سے قبل اسرائیل کے نمائندوں سے بھی بات چیت کی گئی ہے۔
29 دسمبر کو اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت آنے کے بعد تشدد کی کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیل کے حملوں اور چھاپوں کے بعد کشیدگی مزید بڑھی ہے۔
دو مصری عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ رمضان کے دوران اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی بیت المقدس تک رسائی پر پابندیاں اور فلسطینیوں کی اس معاملے میں حساسیت کے پیش نظر مصر کا خیال ہے کہ صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا مصر چاہتا ہے کہ امریکہ تشدد روکنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالے۔ مصر نے "اسلامی جہاد” تحریک سے بھی اپیل کی ہے جو اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کرتی رہی ہے۔
ایک فلسطینی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ "مصر 2023 میں مسلح تصادم کے امکان کے بارے میں پہلے سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہے ، وہ اس بات سے آگاہ ہے کہ اسرائیل میں انتہا پسند حکومت کے بعض وزراء کے اقدامات کو روکنا مشکل ہو سکتا ہے۔”
انہوں نے کہا "مصر سمجھتا ہے کہ اگر مغربی کنارے میں تشدد بڑھا تو وہ غزہ تک پھیل جائے گا۔”
تاہم اسرائیلی حکام نے اس بارے میں کوئی بیان نہیں دیا۔
اسلامی جہاد کے ساتھ اسرائیل نے اگست 2022 میں غزہ میں 56 گھنٹے کی جنگ لڑی تھی اور اس سے پچھلے سال حماس اور اسرائیل کے درمیان بھی کئی روز تک جھڑپیں جاری رہیں۔
دونوں مزاحمتی گروپ اسرائیل کے شدید مخالف ہیں تاہم وہ 2021 میں مصر کی ثالثی میں ہوئے جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کرتے رہے ہیں۔
اسلامی جہاد کے ترجمان داؤد شہاب نے یہودی بستیوں کی تعمیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل مغربی کنارے اور یروشلم کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
شہاب نے کہا کہ تحریک نے مصر کو آگاہ کیا ہے کہ "اگر رمضان کے بابرکت مہینے میں اسرائیلی اشتعال انگیزی جاری رہی تو کوئی بھی اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکے گا، اور صرف مزاحمت ہی اسرائیلی جارحیت کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔