ترکیہ اور شام اوران کے آس پاس کے کچھ علاقوں میں ہلاکت خیز زلزلوں کے جھٹکوں میں بڑے پیمانے پر انسانی زندگیوں کا اتلاف اور کھربوں ڈالر مالیت کے اثاثوں، جائیدادوں، سڑکوں ،عمارتوں ، ائیر پورٹوں کے زمین بوس ہونے کے جو مناظر فی الوقت تک سامنے آئے ہیں وہ دلخراش ہی نہیں بلکہ روح فرسا بھی ہیں۔
پہلے جھٹکے کے بعد سے فی الوقت تک زائد از ۴۰؍ چھوٹے بڑے اور درمیانی درجے کے زلزلوں کے جھٹکے لوگ سہ چکے ہیں جبکہ کچھ ہمسایہ ریاستوں میں حکام نے سونامی کے حوالہ سے الرٹ جاری کئے ہیں۔ ان سطور کو قلمبند کرتے وقت تک دونوں ملکوں میں مر نے والوں کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کرچکی تھی جبکہ زخمیوں کی گنتی جاری ہے۔ بچائو کارروائیاں جاری ہیں اور ملبہ ہٹانے کے دوران ان کے نیچے دبے لوگوں کوزخمی یا مردہ حالت میں نکالنے کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ بھی جاری ہے۔
یہ قہر خداوندی ہے جس کو عام فہم اصطلاح میں روز قیامت کی تباہ کن ہلاکتوں کے حوالہ سے ایک ادنی سی علامت خیال کیاجارہاہے ۔ اس ہلاکت خیزی اور تباہی کو دیکھ کر نہ صرف ہر آنکھ اشک بار ہے بلکہ روح گہرائیوں تک چھلنی سا محسوس کررہاہے۔ ہلاکت خیزی اور تباہی وبربادی کا یہ منظرکیا اور تصورات میں قیامت کامنظر نامہ کیا ہوگا اس کا حال احوال خود اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن کریم میں جگہ بہ جگہ بیان کیا ہے۔
ترکیہ اور شام پیغمبروں ، صحابہ کبارؓ، اولیوں اور ولیوں کی سرزمین ہے، اسلامی تاریخ ان دونوں ملکوں کے حوالوں سے مزین ہے لیکن آج کی تاریخ میں ان دونوں کا احاطہ کیاجائے اور حال احوال کے تعلق سے محض سرسری جائزہ لیاجائے ، رہن سہن ، معاشرتی آداب، اخلاقی انحطاط، مسلکی اور عقیدوں کے تعلق سے فتنہ وفسادات اور جھگڑے ، اقتدار کی رسہ کشی ، قتل وغارت کا معمول، فواہشات کا عروج کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ ترکیہ جس کا آدھا یوروپی اور مغربی کلچر اور اخلاقی انحطاط کے ملبے کے نیچے دبتا جارہاہے وہیں ملک کا دوسراآدھا کچھ حد تک دین سے لگائو رکھتا ہے۔ جبکہ سرزمین شام کو موجودہ موروثی حکمران بشار الاسد نے دُنیا کی چند عسکری طاقتوں کے تعاون سے اپنے جبری اور خاندانی اقتدارکو تحفظ حاصل کرنے کے لئے اپنے ہی ملکی باشندوں کے قبرستان میں تبدیل کررکھاہے۔ لاکھوں بچے، جوان، بوڑھے ،خواتین دُنیا کے مختلف ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی بسر کررہے ہیں اور دانے دانے کو محتاج ہیں۔
یہ مختصر سا تذکرہ اگر چہ پورے منظرنامہ کو اُجاگر نہیں کررہاہے لیکن کچھ کچھ اندازہ توہورہاہے کہ پیغمبروں ، صحابہ کرام اور اولیائوں کی ان سرزمینوں کے ساتھ کیا حشر کیاجارہاہے۔ بہرحال زلزلہ قدرت کی طرف سے محض ایک اشارہ بھی ہے اور انتباہ بھی ہے کہ سنبھل جائو۔ انسانی ہمدردی کے جذبہ کے تحت دونوں ملکوں کے لئے دوست ممالک کی جانب سے امدادی ٹیمیں راجدھانیوں کی جانب رواں دواں ہے جبکہ امدادی سامان لے کر بھی جہاز راجدھانیوں میں پہنچ رہے ہیں۔
یہ وقت ہمدری، جذبہ خیر سگالی اور یکجہتی کا بھی ہے۔ ہندوستان کی جانب سے بھی ابتدائی امداد روانہ کی جارہی ہے جبکہ دہلی نے اس دلخراش اور روح فرسا واقعہ پر متاثرین کے ساتھ تعزیت بھی کی ہے اور ہمدردی کا برملا اظہار بھی کیا ہے۔ حالانکہ ترکیہ کے ساتھ ہندوستان کے زیادہ گرم جوشانہ تعلقات نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود دہلی نے بغیر انتظار کئے امداد کا اعلان کیاہے۔ دہلی میں تعینات ترکی کے سفیر فرات صونال نے اپنے ایک پیغام میں حکومت کا یہ کہکر شکریہ ادا کیا ہے کہ ضرورت کے وقت ہی دوست کی پہنچان ہوتی ہے۔
دہلی کی جانب سے میڈیکل ٹیمیں اور راحتی سامان فوری طور سے ترکی کی جانب روانہ کیاجارہاہے جس میں تربیت یافتہ ڈاگ سکارڈ بھی شامل ہے۔ امداد اور راحتی اقدامات کی نوعیت اور ہیت کیاہونی چاہئے اس کا تعین کرنے کیلئے ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کرلیاگیا جس میں تمام پہلوئوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حتمی فیصلہ کیاجائے گا۔
زلزلوں کی تاریخ اور تباہ کاریوں کی فہرست لمبی ہے۔ دُنیا کے مختلف ممالک اس قسم کی تباہیوں سے دو چار ہوتے رہے ہیں۔ اگر صرف اس صدی کے آغاز سے زلزلوں اور ان سے نقصانات کا سرسری جائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ آفات سماوی کسی مخصوص ملک یا قوم کا مخصوص مقدرنہیں بلکہ اس کی زد میں وقتاً فوقتاً مختلف ممالک آتے رہے ہیں۔مثال کے طور پر اکتوبر ۲۰۰۵ء کا وہ زلزلہ جو کشمیر کے آر پار دونوں خطوں میں آیا نے وسیع تباہی مچادی۔ سرحد کے اُس پار کشمیر میں ۸؍ہزار شہری لقمہ اجل بن گئے جبکہ سرحد کے اِس پار کشمیرمیں بھی بڑے پیمانے پر املاک تباہ ہوئی اور انسانی زندگیوں کا بھی زیاں ہوا۔
ہیٹی میں سال ۲۰۱۰ء اور ۲۰۲۱ء کے دو زلزلوں میں زائد اس تین لاکھ ۲۰؍ہزار لوگ لقمہ اجل ہوئے، نیپال میں ۲۰۱۵ء میں آئے زلزلہ نے تقریباً ۹؍ہزار لوگوں کو نگل لیا۔ چین میں آئے دو زلزلوں نے سال ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۴ء میں زائد از ۸۸؍ ہزار لوگ موت کی آغوش میں سو گئے، سال ۲۰۱۱ء میں جاپان میں ۲۰؍ ہزار لوگ، افغانستان میں سال ۲۰۲۲ء میں ۱۱؍سو شہری، انڈونیشیا میں اسی مدت کے دوران آئے تین زلزلوں میں بحیثیت مجموعی ۲۰؍ ہزار لوگ از جان ہوئے، جبکہ جاپان ، چلی ،پیرو وغیرہ ملکوں میں بھی ہلاکتیں ہوئی اور وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔ سال ۲۰۰۳ء۔۲۰۰۴ء میں ایران اور اس کے گرد نواح کے علاقوں میں آئے زلزلوں نے تقریباً تین لاکھ لوگ کو موت سے ہم کنار کیا۔
یہ سارے واقعات بنی نوع انسان کیلئے چشم کشا ہیں۔ کسی ملک میں آفات سماوی کا مشاہدہ کرکے یہ فرض کرلینا کہ یہ ان کے مقدرمیں لکھاہے ہم محفوظ ہیں اور ہمارا کچھ بھی نہیں بگڑے گا خام خیالی ہے۔ وقت کسی کے ہاتھ یا کنٹرول میں نہیں ہے۔ وقت کب اور کس وقت کروٹ لے اس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ہے، یہ سارا دست قدرمیں ہے۔ اور اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ کچھ کاتعلق مکافات عمل سے ہے، کچھ کا تعلق موسمیاتی اور جغرفیائی تبدیلیوں سے ہے، کچھ لالچی اور ہوس پرست انسانی ہاتھوں کا بھی ثمرہ ہے، اس تعلق سے بہت ساری مثالیں ہماری آنکھوں کے سامنے ڈل جھیل، ولر اور دوسرے آبی ذخائر کی تباہی وبربادی، پہاڑوں کے ساتھ کان کنی کے نام پر توڑ پھوڑ، جنگلوں کے بے دریغ کٹائی، دریائوں اور ندی نالوں کو آلودہ کرکے ان کے پانیوں کو زہر یلا بناکر ناقابل استعمال بنا کر لذت پسندی کے بڑھتے رجحانات کی شکل وصورت میں بھی ہمارے سامنے موجود ہے ۔ نظام قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ قہر خداوندی کی صورت میں نازل ہوجاتی ہے اسی کو فطرت کا جواب یا ردعمل کہاجاتاہے۔