حصول تعلیم وتربیت کیلئے کشمیرسے باہر ملک کے مختلف حصوں کی طرف رُخ کرنے والے کشمیری طالب علم گذشتہ کئی دہائیوں سے فکری دہشت گرد اور جنون پرست گروپوں کے حملوں اور تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ مہاراشٹر ، جھارکھنڈ ، پنجاب، کرناٹک، بنگلور، اُتر پردیش، دہلی اورراجستھان کچھ ایسے علاقے رہے ہیں جہاں زیرتعلیم وتربیت کشمیریوں کو نشانہ بنایاجاتا رہاہے، تازہ ترین واقعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پیش آیا ہے جہاں ایک کشمیری سکالر کو کچھ مذہبی انتہا پسندوں نے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا اور پھر اگلے روز کچھ بیرونی عناصر کے ساتھ مل کر واقعہ کے خلاف احتجاج کرنے اور حملہ آوروں کو پکڑ کر ان کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں درجن بھر کشمیری طالب علموں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔ بربریت کا نشانہ بنانے میں ان حملہ آوروں کو یونیورسٹی کے مسلح محافظوں کا بھر پور تعاون حاصل رہا۔
دراصل قصور ان جنون پرستوں اور فکری دہشت گردوں کا نہیں بلکہ کشمیری طالب علموں کا ہے جو اپنے والدین کی عرق ریزی کا سہارا لے کر ملک کے مختلف حصوں میں اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے چلے جاتے ہیں۔ یہ طالب علم نہ صرف بادی النظرمیں اپنے والدین کی کمائی کا ایک اچھاخاصہ حصہ ان ریاستوں میں اداروں سے وابستہ ہوکر سرمایہ کاری کررہے ہیں بلکہ اپنی قیمتی توانائی اور صلاحیت کو بھی دائو پر لگا رہے ہیں۔ ملک کے تعلیمی اور پیشہ ورانہ اداروں سے وابستہ ہوکر وہ جہاں بھارت جوڑو میں اہم کرداراداکررہے ہیں وہیں آپسی برادارانہ تعلقات اور ہم آہنگی کے جذبات کو آپس میں پیدا کرکے اُبھارنے کے حوالہ سے بھی اہم کرداراداکررہے ہیں۔
لیکن اس کا انہیں کیا صلہ مل رہا ہے ؟ مارپیٹ ،کردارکشی ، گالی گلوچ ، بدنامی کاسامنا اور ذہنی ازیت رسانی، اگر کشمیر کے سابق حکمرانوں نے کشمیر اور جموں کے اندر پیشہ ورانہ اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام کی طرف تھوڑی بہت توجہ مبذول کی ہوتی، سرمایہ کاری کو ایک منصبوبہ بند اور قابل عمل طریقہ کار کے تحت ممکن بنایا ہوتا اور خاص کر اس اہم شعبے کو ترجیح دی ہوتی تو شاید آج کہاجاسکتا کہ کشمیر کی طالب علموں کواس بربریت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
کشمیر کے طالب علم روزگار کے حوالہ سے زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد اور جائز سرگرمیوں کے تعلق سے بیرون کشمیر کام کرنے والوں کے خلاف یہ فکری اور ہجومی دہشت گردی آج کی لعنت نہیں یہ بلکہ یہ لعنت گذشتہ کئی دہائیوں سے موجود ہے۔ اس لعنت کو فروغ دینے اور سماجی سطح پر قابل عمل بنانے کیلئے ماضی میں بھی کچھ سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں اپنا کرداراداکرتی رہی ہے اورآج بھی اسی فکر اور طرزعمل کے ساتھ اسی مذموم عمل کو دہرایا جارہاہے۔ ماضی میں جموں وکشمیر کے کئی وزراء اعلیٰ جن میں غلام نبی آزاد، عمرعبداللہ خاص طور سے پیش پیش رہے ہیں اپنے وقت کے ریاستی ہم منصبوں کی توجہ کشمیریوں کے خلاف اس بربریت کی طر ف دلاتے رہے ہیں، ان کے نام خطوط ارسال کرتے رہے ہیں ، موجودہ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ جب مرکز میں وزیرداخلہ کے فرائض انجام دے رہے تھے تو انہوںنے ذاتی طور اس مسئلہ میں توجہ مبذول کرکے ریاستوں کے نا م کچھ ہدایات جاری کیں تھیں اور شکایات اور معاملات کو ایڈریس کرنے کی غرض سے کچھ اعلیٰ عہدیداروں کوبطور نوڈل آفیسر نامزد کیاتھا۔ کچھ فرق پڑا لیکن اب پھر سے کشمیری طالب علموں کے خلاف اس بربریت کا ایک اور دروازہ کھول دیاگیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کسی ایک بھی واقعہ کی تحقیقات دیانتداری اور شفافیت کے ساتھ نہیں کی جارہی ہے۔ البتہ ایف آئی آر درج کرانے کے دعویٰ صرف سامنے آتے رہے ہیں۔ پھران درج ایف آئی آر ز کا پولیس اسٹیشنوں کی چار دیواریوں کے اندر کیا کچھ حشر کیاجاتا ہے اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پیش آمدہ واقعہ کا محض سرسری طور سے جائزہ لیاجائے تو سوال یہ ہے کہ کیا کسی طالب علم یا سکالر کا اپنے ہم جماعت طالب علموں سے یہ درخواست کرنا کہ وہ اپنے شور وشر کو ذرادھیماکریں کوئی گناہ، کوئی گالی یا کوئی دہشت گردی ہے، بجائے اس کے کہ مخاطب ہم جماعتی اپنے جماعتی طلبہ کی خواہش کا احترام کریں وہ فکری دہشت گردی ، مذہبی منافرت اور مذہبی جنون پرستی کا راستہ اختیار کرکے ان پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔اُتر پردیش کے ان حملہ آوروں کو کردار وعمل کے کس زمرے میں رکھ کر شمار کیاجائے……یہ سوال علی گڑھ یونیورسٹی کی انتظامیہ سے بھی ہے، مقامی پولیس سے بھی ہے اور مقامی سویلین انتظامیہ سے بھی ہے۔
کشمیر میں ایسے دلخراش اور ذہنی اعتبار سے ایسے تکلیف دہ واقعات کا کوئی منفی یا بربریت پر مبنی ردعمل سڑکوں پر دیکھنے کو نہیں ملتا لیکن نفسیاتی طور سے جو چوٹ اس نوعیت کے واقعات سے اوسط کشمیری کو پہنچ رہی ہے وہ ناقابل بیان تو ہے البتہ دہلی اور کشمیر کے درمیان اس نوعیت کے واقعات دوریوں کا مسلسل جنم کا موجب ضرور بن رہے ہیں جن دوریوں کو پاٹنے کا عندیہ خود وزیراعظم نریندرمودی تو دیتے رہتے ہیں لیکن کچھ عنصر جو اپنی جنون پرستی میں یکتا ہیں وزیراعظم کی اس خواہش کا احترام اپنے اوپر لازم ضروری نہیں سمجھتے ۔
ملک کے مختلف حصوں میںکشمیری طالب علموں یا کشمیری سماج سے وابستہ کاروباریوں وغیرہ پرحملوںکے پیچھے درحقیقت جو ذہنیت ہے وہ اب محتاج وضاحت نہیں رہی اور نہ ہی حملہ آوروں کی شناخت یا پہنچان کوئی صیغہ راز ہے۔ اس حوالہ سے حقیقت یہ بھی ہے کہ حملہ آور قصوروار نہیں،البتہ کچھ فرقہ پرستی کے جنون میں مبتلا خودساختہ سماجی، مذہبی وسیاسی شخصیات نے وقتاً فوقتاً کشمیر کے بارے میں جو بہتان گڑھے ہیں، جھوٹ اور فریب سے عبارت قصے کہانیاں پھیلائی ہیں اور بحیثیت مجموعی کشمیراور کشمیریوں کو عفریت کے طور کچھ مخصوص ذہن کے حامل میڈیا ہائوسوں کی معاونت سے ملکی رائے عامہ کے سامنے پیش کرتے آرہے ہیں یہ اُسی کا نتیجہ ہے کہ رائے عامہ کا ایک حصہ منفی طور سے متاثر ہوتا رہا اور وہ اپنی اس منفیات کو کشمیر یوں پر حملہ آور ہونے کی صورت میں عملا رہے ہیں۔
یہ تکلیف دہ منظرنامہ تبدیل ہوسکتا ہے اگر کشمیری طالب علم باہر کا رُخ کرنے کو اپنی ترجیحات کا حصہ نہ بنائیں۔ حصول تعلیم وتربیت کیلئے ہر سال اربوں روپے کا سرمایہ کشمیر سے باہر منتقل ہورہاہے جبکہ اس سرمایہ کے محض ایک حصے کو کشمیرکے اندر سرمایہ کاری کرکے خودکفالت کی سمت میں ایک مضبوط بُنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ راستہ دکھانے اور اس کو قابل عمل بنانے کیلئے کشمیر کو کسی مسیحا کی ضرورت نہیں البتہ ایک مضبوط اعصاب اور نفسیات کے لیڈر یا پیشوا کی راہنمائی درکار ہے جو بدقسمتی سے دستیاب نہیں۔