پاکستان کی سیاسی قیادت ہو یا سیاسی پارٹیاں یا آرمی کے جنرل کوئی ایک بھی کورپشن، بدعنوان طرزعمل اور سوداگرانہ اپروچ کے بغیر اپنی اپنی زندگیوں کا سفر طے کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اس حوالہ سے پاکستان کی ایک خاتون مُصنِفہ عائشہ صدیق نے کچھ سال قبل آرمی میں کورپشن، سیاست میں آرمی کی دخل اندازی اور حکومتی فیصلوں کی سمت طے کرنے ،آرمی کو ایک منظم بزنس ہائوس میں تبدیل کرکے بڑے پیمانے پر ہائوسنگ سوسائٹیاں قائم کرنے، ٹھیکوں کے حصول ،ریٹائرڈ ہورہے آرمی جنرلوں کے حق میں سینکڑوں ایکڑراضیوں کی الاٹمنٹ ایسے معاملات کو بے نقاب کیاتھا۔ تب سے اب تک پاکستان کے حصے کے دریائوں کا بہت سارا پانی بہہ کر سمندر کی آغوش میں گرکر اس کا حصہ بن چکا ہے۔ لیکن آرمی جنرل ہیں کہ اپنے حصے کی ’’ناجائز مراعات‘ سے اپنے ملک کے وسیع تر مفادات کی خاطر بھی دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں۔
موجودہ آرمی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ،جو اپنے اعلانات کے مطابق اس ماہ کی ۲۶؍ تاریخ کو اپنے توسیعی عہدے ، جس پر وہ چھ سال سے متمکن ہیں ، ریٹائرہورہے ہیں بھی ان جنرلوں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جو دولت سمیٹنے میں خاصہ شہرت حاصل کرچکے ہیں جنرل باجوہ کی آمدنی، اثاثوں اوران پر ٹیکس کی ادائیگی کے حوالوں سے ایک نیوز پورٹل نے سنسنی خیز انکشافات کرکے دعویٰ کیاہے کہ چھ سال کی مدت میں قمر باجوہ کے خاندان سے وابستہ قریبی رشتہ داروں نے ۱۲؍عشاریہ ۷؍بلین روپے (پاکستان کرنسی) کی دولت حاصل کی جبکہ چھ سال قبل اس کا عدد صفر تھا۔
نیوز پورٹل نے جنرل موصوف کے جمع شدہ اثاثوں کی تفصیلات شائع کی ہیں جن کا تعلق ۲۰۱۳ء سے سال ۲۰۲۱ء تک ہے۔ ان تفصیلات کے مطابق جنرل باجوہ اور اس کے خاندان کے قریبی رشتہ داروں نے اندروں پاکستان اور بیرون پاکستان جو سرمایہ حاصل کیا ہے اس کا حجم ۱۲؍ عشاریہ ۷؍ بلین روپے ہے۔ مثال کے طور پر جنرل باجودہ کی اہلیہ عائشہ کے اثاثے ۲۰۱۶ء میں صفر کے برابر تھے لیکن چھ سالوں میں ان کا حجم ۲؍عشاریہ ۲؍بلین روپے ہوگیا۔ تاہم ان اثاثوں میں رہائشی پلاٹ ، تجارتی پلاٹ اور مکانات شامل نہیں جو آرمی کی جانب سے جنرل کو اس دوران ملے ہیں۔
اسی طرح جنرل کی بہو مہہ نور صابر کے اثاثوں کا حجم جو سال ۲۰۱۸ء میں صفر کے برابر تھا میں اچانک اضافہ ہوکر ۱۲۷۱ ؍بلین تک پہنچ گیا۔ اثاثوں میں یہ حیرت انگیز اضافہ اکتوبر ۲۰۱۸ء کے آخری عشرے میں صفر سے بڑھ کر صرف ایک ماہ کے دوران نومبر ۲۰۱۸ء تک بتایاگیا اس کی بہن ہمنا ناصر کے اثاثے بھی اسی مدت کے دوران کروڑوں کی دہلیز پار کرگئے۔
آرمی سربراہ کے داماد صابر حمید بھی اثاثوں کے سمیٹنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے جو اثاثے ۲۰۱۳ء میں دس لاکھ سے بھی کم تھے لیکن گذرے چھ برسوں میں وہ بھی کروڑ پتیوں میں شامل ہوا۔ نیوز پورٹل کادعویٰ ہے کہ یہ ساری تفصیلات جنرل قمر باجوہ کی جانب سے دائر انکم ٹیکس گوشواروں سے حاصل کی گئیں ہیں لیکن حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ گوشوارے کا افشا پاکستان کے انکم ٹیکس سے وابستہ رازداری قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ نے ایک سینئر آفیسر کو ۲۴؍ گھنٹے کے اندر اندر معاملے کی تحقیقات کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔
بادی النظرمیں یہ معاملہ بیرون پاکستان سنگین تصورکیاجاسکتاہے لیکن پاکستان کے اندر کورپشن ، بدعنوان طرزعمل، لوٹ پر مبنی سیاست اور سیاسی سوچ اور ناجائز استحصال کی ہی محض ایک اور کڑی یا تسلسل ہے۔آصف زرداری اینڈ کمپنی دس فیصد کا ٹائٹل رکھتی ہے، شریف خاندان کو مافیا اور چور کا ٹائٹل عطاکیاگیا ہے،عمران خان کو بیرون فنڈنگ کے حوالہ سے غدار اور تحفے میںملی گھڑیوں اور دوسری مصنوعات کی عالمی منڈیوں میں فروخت کرکے رقم جیب میںڈالنے کے حوالہ سے گھڑی چور کا لقب عطا ہوا ہے۔ کوئی ایک بھی سیاستدان یا سابق فوجی جنرل نہیں جس پر کروڑوں کے کورپشن یا بدعنوانیوں میں سراپا ملوث ہونے کا الزام نہیں یا جسے عدالتوں میں مقدمات کاسامنا نہیں ۔
چین کے اشتراک سے جاری سی پیک کے ایک سابق سربراہ ریٹائرڈ فوجی آفیسر جنرل عاصم پر الزام ہے کہ سی پیک پر وجیکٹوں کی تعمیر کیلئے چین سے ملے اربوں جیب میں ڈال کر اپنے بیٹوں کے نام غیر ممالک میں اس سرمایہ کو لگادیاہے۔ کورپشن اور بدعنوان طرزعمل دُنیا کے کس حصے یا کس سماج میں نہیں ہے لیکن پاکستان ان چند مخصوص مماملک کی فہرست میں شامل ہے جہاں نہ صرف بیروکریٹ،پولیس، آرمی جنرل ،سیاستدان ،کاروباری اورتاجر کورپشن اور لوٹ میں ۷x۲۴ سرگرم عمل ہیں، ا ن کے اسی لوٹ اور کورپٹ طرزعمل کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کو ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلئے اپنے کچھ دوست اور دوسرے ممالک سے آئے روز مالی معاونت حاصل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جس کے ردعمل میں اس کی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں روزبروز گرتی جارہی ہے جو اپنے دوسرے ردعمل میں قرضوں اور ادائیگوں کے تعلق سے بڑھتے خسارہ کے حجم میں مسلسل اضافہ کا موجب بن رہے ہیں۔
پاکستان کا یہ لینڈ اسکیپ اس کے قیام وتشکیل کے پہلے دن سے برابر قائم ہے جس میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جارہاہے۔ اب تک گذرے ۷۵؍ برسوں کے دوران کوئی ایک بھی مخلص ، دیاتندار اور ایماندار شخص اقتدار پر براجمان ہوتا دکھائی نہیں دیا اور نہ ہی ایسا کوئی ریکارڈ دستیاب ہے۔ ملک کے فی الوقت کے سیاسی منظرنامے کے حوالہ سے اُمید تھی کہ عمران خان اپنے ملک کے اس منظرنامے کو بدل دیں گے کیونکہ ان کا دعویٰ تویہی تھا لیکن اس نے بھی خود کورپٹ ، منی لانڈرنگ اور چوروں کی فہرست میں نام درج کرایا۔