ہاتھ کی پانچ انگلیاں اپنی جسامت اور قد کے اعتبار سے ایک جیسی نہیں، اسی طرح ہر معاشرے اور پیشے میں مختلف ذہنیت اور خصلت وکردار اور فکر کے افراد موجود ہیں ۔ کچھ سماج کو خوشگوار بنانے کی جدوجہد کرکے اپنا مشن آگے بڑھارہے ہیں ، کچھ معاشرتی اقدار اور اعلیٰ روایات کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے اپنا سب کچھ دائو پر بھی لگادینے میںکوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں ہونے دیتے ہیں۔لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سیاہ کارانہ اور مکارانہ خصلت رکھتے ہیں لیکن دراصل وہ انسان کے لباس میں بھیڑئیے ہی ہوتے ہیں۔
اس ذہنیت اور اپروچ کے لوگ سماج اور پیشہ دونوں کیلئے بدنما دھبہ ہوتے ہیں جن کی سرگرمیوں کے نتیجہ میں پورا معاشرہ جہاں دلدل نظرآرہاہے وہیں معاشرتی اقدار زمین بوس ہوتے نظرآرہے ہیں جس کو دیکھتے اور مشاہدہ کرتے ہوئے دوسرے لوگ ایسے معاشروں کو برا اور سیاہ کار ہی تصور کرجبکہ ان کا یہ تاثر وقت گذرتے قدرے مستحکم ہوتا جارہاہے۔
کشمیر کا معاشرہ تاریخی واقعات اور مشاہدات کے تناظرمیں بہت سارے نشیب وفراز سے ہوکر گذرتا رہا ہے، ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب آسمان پر گہرے سیاہ بادل نمودار ہوتے، کہیں کہیں بادلوں کے عین بیچ سُرخ دکھائی دیتے تو ہمارے اسلاف اس کی طرف دیکھ کر اور ایک لمبی ٹھنڈی آہ بھر کر کہتے کہ معلوم نہیں کشمیر میں کچھ نہ کچھ انہونی ہوئی ہے، اللہ خیر کرے، کچھ دیر بعد ان بزرگوں کا قیاس سچ ثابت ہوتا۔ لیکن وقت گذرتے آج وہی کشمیر ہے، کشمیرکی وہی سرزمین ہے، البتہ اقدار انحطاط پذیری کی راہ پر گامزن ہے، برائیاں ، بدیاں اورسیاہ کاریاں بڑی تیزی کے ساتھ سرائیت کرتی جارہی ہے، مخصوص ذہنیت کے حامل لوگوں کی ترجیحات اور خواہشات میں تبدیلی آرہی ہے، ان کیلئے اعلیٰ روایات، اخلاقیات اور اقدار کی کوئی اہمیت اور معنی نہیں، پس ان کا مطمع نظر صرف یہ ہے کہ کیسے نفسانی خواہشات کی تکمیل ممکن ہوسکے کیسے بے محنت کی دولت ان کی تجوریوں کی زینت بنتی رہے، کن راستوں ، حربوں اور ہتھکنڈوں کو بروئے کار لاکر معاشرے میں اپنا دبدبہ قائم ہوسکے تاکہ ڈر، خوف اور دبائو کے آگے لوگ جھکنے پر مجبور ہوتے رہیں۔
کشمیر کے معاشرے میں اب کیا کچھ نہیں ہورہاہے، کو نسی بدیاں، برائیاں بدکاریاں اور سیاہ کاریاں ہیں جواب سماج کاحصہ نہ بنی ہوں اور معاشرتی سطح پر سرائیت نہ کرتی جارہی ہوں۔ ان کا احاطہ ناممکن تو نہیں البتہ مشکل اور وقت طلب ضرور ہے۔
کشمیرنشین میڈیا کے حوالہ سے بات کریں تو کہاجاسکتا ہے کہ حالیہ برسوں میںکشمیر نشین پرنٹ، الیکٹرانک ، سوشل اور ڈیجٹل میڈیا نے ترقی کے بہت سارے زینے طے کرلئے، اور بلا شک وشبیہ یہ دعویٰ کیاجاسکتاہے کہ کشمیر نشین میڈیا نہ صرف ملکی سطح کے میڈیاکے شانہ بہ شانہ اور قدم سے قدم ملاتے ہوئے ستاروں پر اپنی کمندیں ڈال رہاہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی نام اور شہرت کمانے کے ساتھ ساتھ خراج تحسین کے گلدستے بٹوررہاہے۔
لیکن یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ اسی میڈیا میں کچھ ایسے لوگ بھی جگہ پانے میں کامیاب ہورہے ہیں جن کا صحافت کے ساتھ ذرہ بھر بھی کوئی وابستگی نہیں ہے اورنہ ہی وہ کسی مستند صحافتی ادارے سے فارغ البال ہیں۔بس پیشہ سے وابستہ کسی جانے پہچانے سے معمولی سی وابستگی ایسے افراد اپنے لئے ایک سند تصور کرتے ہیں، چند ہزار روپے مالیت کا کیمرہ گلے کا ہار بناکر دندناتے پھرتا نظرآرہاہے۔ کسی کو بلیک میل کررہا ہے ، کوئی بھتہ خوری میں سراپا ملوث نظرآرہاہے، کوئی جنسی ہراسانی اور عصمتوں کا سوداگر بن کر اپنی حیوانیت پر مہر تصدیق ثبت کرتا دکھائی دے رہاہے اور کوئی اپنے حقیر ذلیل مفادات کی تکمیل کی خاطر کچھ ایوانوں کیلئے سپلائر کاکرداراداکرنے کی خدمات انجام دیتا نظرآرہاہے۔
حالیہ برسوں کے دوران کچھ ایسے شیطان نما خود ساختہ صحافیوں کو زدمیں لایاگیا ہے جو ایسی ہی نوعیت کی سیاہ کاریوں میں سراپا ملوث پائے جاتے رہے ہیں۔ اب تازہ ترین واقعہ میںملوث ایک خود ساختہ صحافی کو بھی پولیس اپنی حراست میں لینے میں کامیاب ہوئی ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بلیک میلنگ ، بھتہ خوری اور جنسی ہراسانی میں ملوث ہے۔ پولیس نے اس تعلق سے ایک خاتون کی شکایت پر کارروائی کرکے اس کے خلاف کیس رجسٹر کرلیا ہے، پولیس کی یہ کارروائی سراہنے ہے جس کا ہم بحیثیت حساس اور ذمہ دار میڈیا کے بھر پور خیر مقدم کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ پویس پوری دیانتداری ، خلوص جذبہ کے ساتھ معاملہ کی تفتیش کرکے اس مخصوص ملزم کو قانون کے شکنجے میں لاکر رہے گی تاکہ صحافت اور صحافتی پیشے کے تقدس کو بدنام اور پامال کرنے کی کسی اور میں جرأت نہ ہوگی بلکہ ایسی کارروائی بحیثیت مجموعی عبرت آموز بھی ثابت ہو۔
اس ضمن میں یہ بات بھی قبل غور، توجہ طلب اور تحقیقات طلب ہے کہ مذکورہ شخص ،جس نے سیاہ کاری اور بدبختی کی ساری حدیں صحافت کی آڑ میں پھلانگ لی ہے، کس صحافتی ادارے سے وابستہ ہے یا خود کو وابستہ جتلا تا رہاہے۔ اگر وہ کسی ادارے سے وابستگی جتلا تا رہا ہے تو کیا اُس ادارے کو اس شخص کی سرگرمیوں کا علم نہیں تھا، اگر تھا تو خاموشی کیوں اختیار کی ؟ کیا یہ طرزعمل مجرم کی سرپرستی اور معاونت کرنے کے مترادف نہیں؟
اس مخصوص فکر، خصلت اور طرزعمل کے حامل خودساختہ صحافیوں کو صحافتی اور انتظامی اصطلاح میں’’ زرد صحافی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور جن اداروں کے ساتھ اس مخصوص ذہنیت کے نام نہاد صحافی وابستہ ہوتے ہیں ان اداروں پر’’ زرد صحافت ‘‘ کی لیبل چسپاں کی جاتی رہی ہے، جنوبی ایشیاء کے اس سارے خطے میں اس ذہنیت اور کردار کے حامل نام نہاد صحافیوں کی کوئی کمی نہیں ہے،پھر خطے سے وابستگی کی بنا پر کشمیرمستثنیٰ نہیں!!